پر خاک ڈال رہی ہے۔ "راوی کہتا ہے دوست دشمن کوئی نہ تھا، جوان کے بین سے رونے نہ لگا ہو۔[1] 72سر پھر تمام مقتولوں کے سرکاٹے گئے۔ کل 72 سر تھے۔ شمر ذوالجوشن قیس بن العثت، عمرو بن الحجاج، عزمرہ بن قیس، یہ تمام عبید اللہ بن زیاد کے پاس لے گئے۔ حمید بن مسلم(جو خولی بن یزید کے ساتھ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاسرکوفہ لایا تھا)روایت کرتا ہے کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاسرابن زیاد کے روبرو رکھا گیا۔ مجلس حاضرین سے لبریز تھی۔ ابن زیاد کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ چھڑی آپ کے لبوں پر مارنے لگا۔ جب اس نے بار بار یہی حرکت کی تو زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ارقم چلا اٹھے :ان لبوں سے اپنی چھڑی ہٹا لے قسم خدا کی، میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے ہونٹ ان ہونٹوں پر رکھتے تھے اور ان کابوسہ لیتے تھے۔ ‘‘یہ کہہ کروہ زار و قطار رونے لگے۔ ابن زیاد خفا ہو گیا:”خدا تیری آنکھوں کو رلائے۔ واللہ اگر |