افضل ہیں اور جو اپنے نسب میں سب سے اچھا ہے ) عمر بن سعد نے اسے اندر بلا لیا اور بہت خفا ہو کر کہنے لگا:”واللہ تو مجنون ہے۔ ‘‘پھر اپنی لکڑی سے اسے مار کر کہا:”پاگل ایسی بات کہتا ہے۔ بخدا اگر عبید اللہ بن زیادہ سنتا تو تجھے ابھی مروا ڈالتا۔‘‘[1] لوٹ کھسوٹ قتل کے بعد کوفیوں نے آپ کے بدن کے کپڑے تک اتار لئے، پھر آپ کے خیمے کی طرف بڑھے۔ زین العابدین بسترپربیمار پڑے تھے۔ شمر اپنے چندسپاہوں کے ساتھ پہنچا اور کہنے لگا:اسے بھی کیوں نہ قتل کر ڈالیں۔ ’’لیکن اس کے بعض ساتھیوں نے مخالفت کی۔ کہا:کیا بچوں کو بھی مار ڈالو گے ؟‘‘ اسی اثناء میں عمر بن سعدبھی آ گیا اور حکم دیا:”کوئی عورتوں کے خیمے میں نہ گھسے اس بیمار کو کوئی نہ چھیڑے، جس کسی نے خیمہ کا اسباب لوٹا ہو، واپس کر دے۔ ‘‘ زین العابدین نے یہ سن کر اپنی بیمار آوازسے کہا: عمر بن سعد!اللہ تجھے جزائے خیر دے، تیری زبان نے ہمیں بچا لیا۔ ‘‘ نعش روند ڈالی عمر بن سعدکوحکم تھا کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نعش گھوڑوں کے ٹاپوں سے روند ڈالے، اب اس کا وقت آیا اور اس نے پکار کر کہا:”اس کام کے لئے کون تیار ہے ؟‘‘دس آدمی تیار ہوئے اور گھوڑے دوڑا کرجسم مبارک روند ڈالا۔ |