اس طرح گھرا دیکھا تو جوش سے بے خود ہو گیا اور خیمہ کی لکڑی لے کر دوڑ پڑا۔ راوی کہتا ہے اس کے کانوں میں پردے ہل رہے تھے، یہ گھبرایا ہوا دائیں بائیں دیکھتا چلا گیا۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نظراس پر پڑ گئی، دوڑ کر پکڑ لیا۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی دیکھ لیا اور بہن سے کہا:”روکے رکھو، آنے نہ پائے۔ "مگر لڑکے نے زور کر کے اپنے آپ کو چھڑا لیا اور حضرت کے پہلو میں پہنچ گیا۔ عین اس وقت بحر بن کعب نے آپ پر تلوار اٹھائی۔ لڑکے نے فوراً ڈانٹ پلائی۔ "او خبیث!میرے چچا کو قتل کرے گا؟”سنگدل حملہ آور نے اپنی بلند تلوار لڑکے پر چھوڑ دی، اس نے ہاتھ پر روکی۔ ہاتھ کٹ گیا، ذراسی کھال لگی رہ گئی۔ بچہ تکلیف سے چلایا۔ حضرت نے اسے سینے سے چمٹا لیا اور فرمایا:”صبر کراسے ثواب خداوندی کا ذریعہ بنا۔ اللہ تعالیٰ تجھے بھی تیرے بزرگوں تک پہنچا دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب، حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اب آپ پر ہر طرف سے نرغہ شروع ہوا۔ آپ نے بھی تلوار چلانا شروع کی۔ پیدل فوج پر ٹوٹ پڑے اور تن تنہا اس کے قدم اکھاڑ دئیے۔ عبداللہ بن عمارجوخوداس جنگ میں شریک تھا، روایت کرتا ہے کہ میں نے نیزے سے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کیا اور ان کے بالکل قریب پہنچ گیا۔ اگر میں چاہتا تو قتل کر سکتا تھا مگر یہ خیال کر کے ہٹ گیا کہ یہ گناہ اپنے سرکیوں لوں ؟میں نے دیکھا دائیں بائیں ہر طرف سے ان پر حملے ہو رہے تھے لیکن وہ جس طرف |