شروع کیا۔ فوج اسے بچانے کے لئے ٹوٹ پڑی مگر گھبراہٹ میں بچانے کی بجائے اسے روند ڈالا۔ راوی کہتا ہے ’’جب غبار چھٹ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ لڑکے کے سرہانے کھڑے ہیں، وہ ایڑیاں رگڑ رہ ہے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :”ان کے لئے ہلاکت جنہوں نے تجھے قتل کیا ہے۔ قیامت کے دن تیرے نانا کو یہ کیا جواب دیں گے ؟بخدا تیرے چچا کے لئے یہ سخت حسرت کا مقام ہے تو اسے پکارے اور وہ جواب نہ دے یا جواب دے مگر تجھے اس کی آواز نفع نہ دے سکے۔ افسوس!تیرے چچا کے دشمن بہت ہو گئے اور دوست باقی نہر ہے۔‘‘پھر لاش اپنی گود میں اٹھا لی۔ لڑکے کا سینہ آپ کے سینہ سے ملا ہوا تھا اور پاؤں زمین پر رگڑتے جاتے تھے۔ اس حال میں آپ اسے لائے اور علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش کے پہلو میں لٹا دیا۔ راوی کہتا ہے۔‘‘میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہے ؟”لوگوں نے بتایاقاسم بن حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب۔ ‘‘ مولود تازہ شہادت حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر اپنی جگہ کھڑے ہو گئے۔ عین اس وقت آپ کے یہاں لڑکا پیدا ہوا، وہ آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے اسے گود میں رکھا اور اس کے کان میں اذان دینے لگے۔ اچانک ایک تیر آیا اور بچہ کے حلق میں پیوست ہو گیا۔ بچہ کی روح اسی وقت پرواز کر گئی۔ آپ نے تیراس کے حلق سے کھینچ کر نکالا۔ خون سے چلو بھرا اور اس کے جسم پر ملنے اور فرمانے لگے۔ واللہ!تو خدا |