Maktaba Wahhabi

161 - 244
(قسم خدا کی نامعلوم باپ کے لڑکے کا بیٹا ہم پر حکومت نہیں کر سکے گا) بڑی شجاعت سے لڑے، آخر مرہ بن مرہ بن متقد العبدی کی تلوارسے شہید ہو گئے۔ ایک راوی کہتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ خیمہ سے ایک عورت تیزی سے نکلی۔ اتنی حسین عورت تھی جیسے اٹھتا ہواسورج!وہ چلا رہی تھی آہ!بھائی!آہ بھتیجے !میں نے پوچھا:یہ کون ہے ؟لوگوں نے کہا”زینب بنت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم!”لیکن حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور خیمے میں پہنچا آئے۔ پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نعش اٹھائی اور خیمے کے سامنے لا کر رکھ دی۔[1] ایک جوان رعنا ان کے بعد اہل بیت اور بنی ہاشم کے دوسرے جاں فروش قتل ہوتے رہے یہاں تک کہ میدان میں ایک جوان رعنا نمودار ہوا، وہ کرتہ پہنے، تہ بند باندھے، پاؤں میں نعل پہنے تھا، بائیں نعل کی ڈوری ٹوٹی ہوئی تھی۔ وہ اس قدرحسین تھا کہ چاند کا ٹکڑا معلوم ہوتا تھا۔ شیر کی طرح بپھرتا ہوا آیا اور دشمن پر ٹوٹ پڑا۔ عمرو بن سعدازوی نے اس کے سرپرتلوارماری نوجوان چلایا:”ہائے چچا” اور زمین پر گر پڑا۔ آوازسنتے ہی حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھوکے باز کی طرح ٹوٹے اور غضبناک شیر کی طرح قاتل پر لپکے، بے پناہ تلوار کا وار کیا مگر ہاتھ کہنی سے کٹ کر اڑ چکا تھا۔ زخم کھا کر قاتل نے پکارنا
Flag Counter