ڈروں گا) زہیر کی شہادت چند لمحوں کی بات تھی۔ حر زخموں سے چور ہو گرے اور جاں بحق تسلیم ہو گئے۔ اب ظہر کا وقت ختم ہو رہا تھا۔ حضرت نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ نماز کے بعد دشمن کا دباؤ اور بھی زیادہ ہو گیا۔ اس موقع پر آپ کے میسرہ کے سپہ سالارزہیر بن القین نے میدان اپنے ہاتھ میں لے لا ا اور شعر پڑھتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ : انازھیر وانا ابن القین اذودھم بالسیف عن حسین (میں زہیر ہوں، ابن القین ہوں، اپنی تلوار کی نوک سے انہیں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دور کر دوں گا) صفیں درہم برہم کر ڈالیں۔ پھر لوٹے اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شانے پر ہاتھ مار کر جوش سے یہ شعر پڑھے۔ اقدم ھدیت ھادیا مھدیا فالیوم تلفی جدک النبیا (بڑھ خدا نے تجھے ہدایت دی، آج تو اپنے نانا نبی سے ملاقات کرے گا) وحسناو المرتضی علیا ودالجناحین الفنی الکمیا ( اور حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، علی المرتضی سے رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بہادر جوان جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ) واسداللّٰه الشھیدالحیا اور شہید زندہ اسداللہ حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) |