کے میمنہ نے حملہ کیا جب بالکل قریب پہنچ گئے تو حضرت کے رفقاء زمین پر گھٹنے ٹیک کر کھڑے ہو گئے اور نیزے سیدھے کر دیئے۔ نیزوں کے منہ پر گھوڑے بڑھ نہ سکے اور لوٹنے لگے۔ حضرت کی فوج نے اس موقع پر فائدہ اٹھایا اور تیر مار کر کئی آدمی اور زخمی کر دئیے۔ عام حملہ اب باقاعدہ جنگ جاری ہو گئی۔ طرفین سے ایک ایک دو دو جوان نکلتے تھے اور تلوار کے جوہر دکھاتے تھے۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرفداروں کا پلہ بھاری تھاجوسامنے آتا تھا، مارا جاتا تھا، میمنہ کے سپہ سالاروں عمرو بن الحجاج نے یہ حالت دیکھی تو پکار اٹھے :”بیوقوفو!پہلے جان لو، کن سے لڑ رہے ہو؟یہ لوگ جان پر کھیلے ہوئے ہیں، تم اسی طرح ایک ایک کر کے قتل ہوتے جاؤ گے۔ ایسانہ کرو، یہ مٹھی بھر ہیں، انہیں پتھروں سے مارسکتے ہو۔ عمر بن سعد نے یہ رائے پسندکی اور حکم دیا کہ مبارزت موقوف کی جائے اور عام حملہ شروع ہو چنانچہ میمنہ آگے بڑھا اور کشت و خون شروع ہو گیا۔ ایک گھڑی بعد لڑائی رکی تو نظر آیا کہ حسینی فوج کے ناموربہادرمسلم بن عوسجہ خاک و خون میں پڑے ہیں۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوڑ کر لاش پر پہنچے، ابھی سانس باقی تھی۔ آہ بھر کر فرمایا:مسلم تجھ پر اللہ کی رحمت:منھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظرومابدلواتبدیلا۔ مسلم بن عوسجہ اس جنگ میں آپ کی جانب سے پہلے شہید تھے۔[1] |