اور آپ کے معاملہ میں اس حد تک پہنچ جائیں گے۔ واللہ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ وہ ایسا کریں گے تو ہرگزاس حرکت کا مرتکب نہ ہوتا۔ میں اپنے قصوروں پر نادم ہو کر توبہ کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں۔ میں آپ کے قدموں پر قربان ہونا چاہتا ہوں۔ کیا آپ کے خیال میں یہ میری توبہ کے لئے کافی ہو گا؟‘‘ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شفقت سے فرمایا۔ ’’ہاں اللہ تیری توبہ قبول کرے، تجھے بخش دے۔ تیرا نام کیا ہے ؟‘‘اس نے کہا:”حر بن یزید۔ ‘‘ فرمایا:”تو حر(یعنی آزاد)ہی ہے جیساکہ تیری ماں نے تیرا نام رکھ دیا ہے تو دنیا میں اور آخرت میں انشاء اللہ حر ہے۔‘‘ کوفیوں سے حر کا خطاب پھر حر دشمن کی صفوں کے سامنے پہنچا اور کہا:”اے لوگو!حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیش کی ہوئی شرطوں میں سے کوئی شرط منظور کیوں نہیں کر لیتے تاکہ اللہ تمہیں امتحان سے بچا لے ؟‘‘ لوگوں نے جواب دیا:”یہ ہمارے سردارعمر بن سعدموجودہیں، جواب دیں گے۔ ‘‘ عمر نے کہا:”میری دلی خواہش تھی کہ ان کی شرطیں منظور کر سکتا۔ ‘‘ اس کے بعد حر نے نہایت جوش و خروش سے تقریر کی اور اہل کوفہ کو ان کی بدعہدی و عذر پر شرم و غیرت دلائی لیکن اس کے جواب میں انہوں نے تیربرسانے شروع کر دیئے، ناچار خیمہ کی طرف لوٹ آئے۔ |