بعد میں قرہ کہا کرتا تھا:”حر کے اس سوال ہی سے میں سمجھ گیا تھا کہ وہ لڑائی میں شریک نہیں ہونا چاہتا اور مجھے ٹالنا چاہتا ہے تاکہ اس کی شکایت حاکم سے نہ کروں۔ ‘‘میں نے گھوڑے کو پانی نہیں پلایا، میں ابھی جاتا ہوں’’یہ کہہ کر میں دوسری طرف روانہ ہو گیا۔ میرے الگ ہوتے ہی حر نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف آہستہ آہستہ بڑھنا شروع کیا۔ اس کے قبیلہ کے ایک شخص مہاجر بن اوس نے کہا:”کیا تم حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کرنا چاہتے ہو؟‘‘حر خاموش ہو گیا۔ مہاجر کو شک ہوا کہنے لگا۔ ’’تمہاری خاموشی مشتبہ ہے۔ میں نے کبھی کسی جنگ میں تمہاری یہ حالت نہیں دیکھی۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ کوفہ میں سب سے بہادر کون ہے ؟تو تمہارے نام کے سواکوئی نام میری زبان پر نہیں آ سکتا۔ پھر یہ تم اس وقت کیا کر رہے ہو؟‘‘ حر نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ ‘‘ ’’بخدا میں جنت یا دوزخ کا انتخاب کر رہا ہوں۔ واللہ میں نے جنت کا انتخاب کر لیا ہے، چا ہے مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا جائے۔ ‘‘ یہ کہا اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر لشکرحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں پہنچ گیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پہنچ کر کہا:”ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم!میں ہی وہ بدبخت ہوں جس نے آپ کو لوٹنے سے روکا۔ راستہ بھر آپ کا پیچھا اور اس جگہ اتر نے پر مجبور کیا۔ اللہ کی قسم میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آئی کہ یہ لوگ آپ کی شرطیں منظور نہ کریں گے۔ |