زہیر نے جواب دیا:”خیر اگر فاطمہ کا بیٹاسمیہ کے چھوکرے (یعنی ابن زیاد)سے کہیں زیادہ تمہاری حمایت و نصرت کا مستحق ہے تو کم از کم اولادرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اتناپاس کرو کہ اسے قتل نہ کرو۔ اسے اور اس کے عم زاد یزید بن معاویہ کو چھوڑ دو تاکہ آپس میں اپنا معاملہ طے کر لیں۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یزید کو خوش کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ تم حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خون بہاؤ۔ ‘‘[1] حر بن یزید کی موافقت عدی بن حرملہ سے روایت ہے کہ ابن سعد نے جب فوج کو حرکت دی تو حر بن یزید نے کہا:۔ ’’خدا آپ کوسنوارے !کیا آپ اس شخص سے واقعی لڑیں گے ؟‘‘ ابن سعد نے جواب دیا:”ہاں، واللہ لڑائی!ایسی لڑائی جس میں کم از کم یہ ہو گا کہ سرکٹیں گے اور ہاتھ شانوں سے اڑ جائیں گے۔ ‘‘ حر نے کہا۔ ’’کیا ان تین شرطوں میں سے کوئی ایک بھی قابل قبول نہیں جو انہوں نے پیش کی ہیں ؟‘‘ ابن سعد نے کہا۔ ’’بخدا مجھے اختیار ہوتا تو ضرور منظور کر لیتا مگر کیا کروں تمہارا حاکم منظور نہیں کرتا۔ ‘‘ حر بن یزید یہ سن کر اپنی جگہ لوٹ آیا۔ اس کے قریب خوداس کے قبیلہ کا بھی ایک شخص کھڑا تھا، اس کا نام قرہ بن قیس تھا۔ حر نے اس سے کہا:”تم نے اپنے گھوڑے کو پانی پلا لیا؟” |