بڑے کوفیوں کے نام لے کر پکارنا شروع کیا۔ ’’اے اشعت بن ربعی، اے حجاب بن ابجر، اے قیس بن الاشعت، اے یزید بن الحارث!کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھا کہ پھل پک گئے ہیں، زمین سرسبزہو گئی، نہریں ابل پڑیں۔ آپ اگر آئیں گے تو اپنی فوج جرار کے پاس آئیں گے، جلد آئیے۔ ‘‘ اس پران لوگوں کی زبانیں کھلیں اور انہوں نے کہا:ہرگز نہیں، ہم نے تو نہیں لکھا تھا۔ ‘‘ آپ چلا اٹھے۔’’سبحان اللہ!یہ کیا جھوٹ ہے۔ واللہ تم نے لکھا تھا۔ اس کے بعد آپ نے پھر پکار کر کہا:”اے لوگو!چونکہ تم اب مجھے ناپسندکرتے ہو، اس لئے بہتر ہے کہ مجھے چھوڑ دو، میں یہاں سے واپس چلا جاتا ہوں۔ ‘‘ ذلت منظور نہیں یہ سن کرقیس بن الاشعت نے کہا:”کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ اپنے آپ کو اپنے عم زادوں کے حوالے کر دیں، وہ وہی برتاؤ کریں گے جو آپ کوپسند ہے، آپ کو ان سے کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ ‘‘ آپ نے جواب دیا۔ ’’تم سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہو۔ اے شخص!کیا تو چاہتا ہے کہ بنی ہاشم تجھ سے مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ تعالیٰ عنہ کے سوا ایک اور خون کا بھی مطالبہ کریں ؟نہیں، واللہ!میں ذلت کے ساتھ اپنے آپ کو ان کے حوالے نہیں کروں گا۔ ‘‘[1] |