کھڑے ہو کر بلند آوازسے یہ خطبہ دیا: ’’لوگو!میری بات سنو، جلدی نہ کرو۔ مجھے نصیحت کر لینے دو، اپنا عذر بیان کرنے دو، اپنی آمد کی وجہ کہنے دو۔ اگر میرا عذر معقول ہو اور تم اسے قبول کر سکو اور میرے ساتھ انصاف کرو تو یہ تمہارے لئے خوش نصیبی کا باعث ہو گا اور تم میری مخالفت سے باز آ جاؤ گے لیکن اگرسننے کے بعد بھی تم میرا عذر قبول نہ کرو اور انصاف کرنے سے انکار کر دو تو پھر مجھے کسی بات سے بھی انکار نہیں۔ تم اور تمہارے ساتھی ایکا کر لو، مجھ پر ٹوٹ پڑو، مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو۔ میرا اعتماد ہر حال میں صرف پروردگار عالم پر ہے اور وہ نیکوکاروں کا حامی ہے۔ ‘‘ آپ کی اہل بیت نے یہ کلام سنا تو شدت تاثرسے بے اختیار ہو گئیں اور خیمہ سے آہ و بکا کی صدا بلند ہوئی۔ آپ نے اپنے بھائی عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اپنے فرزند علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا تاکہ انہیں خاموش کرائیں اور کہا:”ابھی انہیں بہت رونا باقی ہے۔‘‘پھر بے اختیار پکار اٹھے : ’’خداعباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر دراز کرے۔ ‘‘(یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ)راوی کہتا ہے یہ جملہ اس لئے آپ کی زبان سے نکل گیا کہ مدینہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عورتوں کوساتھ لے جانے سے منع کیا تھا مگر آپ نے اس پر توجہ نہ کی تھی۔ اب ان کا جزع و فزع دیکھا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات یاد آ گئی۔ پھر آپ نے ازسرنوتقریرشروع کی۔ ’’لوگو!میراحسب ونسب یاد کرو، سوچوکہ میں کون ہوں ؟پھر اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے ضمیرکامحاسبہ کرو۔ خوب غور کرو، |