شمر کی یادہ گوئی فوج سے شمر ذی الجوشن گھوڑا دوڑاتا ہوا نکلا۔ آپ کے لشکر کے گرد پھرا اور آگ دیکھ کر چلایا:اے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ!قیامت سے پہلے ہی تم نے آگ قبول کر لی؟‘‘ حضرت نے جواب دیا:اے چروا ہے کے لڑکے !تو ہی آگ کا زیادہ مستحق ہے۔ مسلم بن عوسجہ نے عرض کیا:”مجھے اجازت دیجئے، اسے تیر مار کر ہلاک کر ڈالوں کیونکہ بلکہ زد پر ہے۔ ‘‘ حضرت نے منع کر دیا:”نہیں میں لڑائی میں پہل نہیں کروں گا۔‘‘[1] دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے دشمن کا رسالہ آگے بڑھتے دیکھ کر آپ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے۔ الٰہی!ہر مصیبت میں تجھی پرمیرابھروسہ ہے۔ ہرسختی میں میرا تو ہی پشت پناہ ہے۔ کتنی مصیبتیں پڑیں۔ دل کمزور ہو گیا۔ تدبیر نے جواب دے دیا۔ دوست نے بے وفائی کی۔ دشمن نے خوشیاں منائیں۔ مگر میں نے صرف تجھی سے التجا کی اور تو نے ہی میری دستگیری کی!تو ہی ہر نعمت کا والی ہے تو ہی احسان والا ہے، آج بھی تجھی سے التجا کی جاتی ہے۔ [2] دشمن کے سامنے خطبہ جب دشمن قریب آ گیا تو آپ نے اونٹنی طلب کی، سوار ہوئے، قرآن سامنے رکھا اور دشمن کی صفوں کے سامنے |