لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ (178) مَا كَانَ اللّٰهَ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۔ (دشمن یہ خیال نہ کریں کہ ہماری ڈھیل ان کے لئے بھلائی ہے۔ ہم صرف اس لئے ڈھیل دے رہے ہیں کہ ان کا جرم اور زیادہ ہو جائے۔ اللہ مومنین کواسی حالت میں چھوڑ رکھنے والا نہیں ہے، وہ پاک کو ناپاک سے الگ کر دے گا) دشمن کے ایک سوار نے یہ آیت سنی تو چلا کر کہنے لگا:”قسم رب کعبہ کی، ہم ہی وہ طیب ہیں اور تم سے الگ کر دئیے گئے ہیں۔ عشرہ کی صبح جمعہ یاسنیچرکے دن دسویں محرم کو نماز فجر کے بعد عمر بن سعداپنی فوج لے کر نکلا۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے اصحاب کی صفیں قائم کیں۔ ان کے ساتھ صرف32 سوار اور 40 پیدل، کل 72 آدمی تھے۔ میمنہ پر زہیر بن القین کو مقرر کیا۔ علم اپنے بھائی عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دے دیا۔ خیموں کے پیچھے خندق کھودکراس میں بہت سا ایندھن ڈھیر کر دیا گیا اور آگ جلادی گئی تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ آور نہ ہو سکے۔ |