زہیر نے کہا:”ہاں یہ سچ ہے میں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کبھی کوئی خط نہیں لکھا نہ کبھی کوئی قاصد بھیجا لیکن سفر نے ہم دونوں کو یکجا کر دیا ہے۔ میں نے انہیں دیکھا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم یاد آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان کی محبت یاد آ گئی۔ میں نے دیکھا یہ کتنے قوی دشمن کے سامنے جا رہے ہیں۔ اللہ نے میرے دل میں ان کی محبت ڈال دی۔ میں نے اپنے دل میں کہا۔ "میں ان کی مدد کروں گا اور اللہ اور اس کے رسول کے اس حق کی حفاظت کروں جسے تم نے ضائع کر دیا ہے۔ ‘‘ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب ابن زیاد کے خط کا مضمون معلوم ہوا تو انہوں نے کہا:اگر ممکن ہو تو آج انہیں ٹال دو تاکہ آج رات اور اپنے کی نماز پڑھ لیں، اس سے دعا کریں، مغفرت مانگیں کیونکہ وہ جانتا ہے، میں اس کی عبادت کا دلدادہ اور اس کی کتاب پڑھنے والا ہوں۔ ‘‘ چنانچہ یہی جواب دیا گیا اور فوج واپس آ گئی۔ [1] آپ کی حسرت اور احباب کی وفاداری فوج کی واپسی کے بعد رات کو آپ نے اپنے ساتھی جمع کئے اور خطبہ دیا:۔ ’’اللہ کی حمدوستائش کرتا ہوں، رنج و راحت ہر حالت میں اس کا شکر گزار ہوں۔ الٰہی !تیرا شکر کہ تو نے ہمارے گھر کو نبوت |