بعد ان کی لاش گھوڑوں سے روند ڈالنا کیونکہ وہ باغی ہیں اور جماعت سے نکل گئے ہیں۔ میں نے عہد کر لیا ہے اگر قتل کروں گا تو یہ ضرور کروں گا۔ ‘‘ ’’اگر تم نے میرے حکم کی تعمیل کی تو انعام و اکرام کے مستحق ہو گے اور اگر نافرمانی کی تو قتل کئے جاؤ گے۔ ‘‘ شمر بن ذی الجوشن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شمر بن ذی الجوشن کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی پھوپھی ام البنین بنت خرام امیرالمومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجیت میں تھیں اور انہی کے بطن سے ان کے چار صاحبزادے عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان پیدا ہوئے تھے جواس معرکہ میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے۔ اس طرح شمر، ان چاروں کا ان کے واسطے سے حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پھوپھیرا بھائی تھا۔ اس نے ابن زیاد سے درخواست کی تھی کہ اس کے ان عزیزوں کو امان دے دی جائے اور اس نے منظور کر لیا تھا، چنانچہ اس نے میدان میں چاروں صاحبزادوں کو بلا کر کہا:”تم میرے دادہیالی ہو، تمہارے لئے میں نے امن وسلامتی کا سامان کر لیا ہے۔ ‘‘[1] لیکن انہوں نے جواب دیا۔’’افسوس تم پر، تم ہمیں تو امان دیتے ہو لیکن فرزندرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے امان نہیں ہے ؟ شمر نے ابن سعدکوحاکم کوفہ کا خط پہنچا دیا اور وہ طوعاً کرہاً بخوف |