مگر آپ بدستوراپنے ارادے پر جمے رہے۔ [1] فرزوق سے ملاقات مکہ سے آپ عراق کو روانہ ہو گئے۔ "صفاح”نام مقام پر مشہور محب اہل بیت شاعر فرزوق سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے پوچھا:”تیرے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے ؟‘‘ فرزوق نے جواب دیا:”ان کے دل آپ کے ساتھ مگر تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔ ‘‘فرمایا”سچ کہتا ہے، مگر اب ہمارا معاملہ اللہ کے ہاتھ ہے، وہ جو چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے۔ ہمارا پروردگار ہر لمحہ کسی نہ کسی حکم فرمائی ہے اگراس کی مشیت ہماری پسند کے مطابق ہو تواس کی ستائش کریں گے۔ اگر امید کے خلاف ہو تو بھی نیک نیتی اور تقویٰ کا ثواب کہیں نہیں گیا ہے۔ ‘‘ یہ کہا اور سواری آگے بڑھائی۔[2] مسلم بن عقیل کے عزیزوں کی ضد زرود نام مقام میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ آپ کے نائب مسلم بن عقیل کو کوفہ میں یزید کے گورنر عبید اللہ بن زیاد نے علانیہ قتل کر دیا اور کسی کے کان پر جون تک نہ رینگی۔ آپ نے سنا تو بار بار۔ إِنَّا للّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۔ پڑھنا شروع کیا۔ بعض ساتھیوں نے کہا:۔ ’’اب بھی وقت ہے ہم آپ کے اور آپ کے اہل بیت کے معاملہ میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتے ہیں۔ للہ یہیں سے لوٹ چلئے۔ کوفہ |