آپ کے لئے ہلاکت اور آپ کے اہل بیت کے لئے بربادی ہے اگر آپ قتل ہو گئے تو زمین کا نور بجھ جائے گا۔ اس وقت ایک آپ ہی ہدایت کا نشان اور ارباب ایمان کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ سفرمیں جلدی نہ کیجئے، میں آتا ہوں۔ ‘‘[1] والی عمرو کا خط یہی نہیں بلکہ انہوں نے یزید کے مقرر کئے ہوئے والی عمرو بن سعید بن العاص سے جا کر کہا۔ ’’حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھو اور ہر طرح سے مطمئن کر دو۔ ‘‘عمرو نے کہا:آپ خود خط لکھ لائیے، میں مہر کر دوں گا چنانچہ عبداللہ نے والی کی جانب سے یہ خط لکھا:۔ ’’میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کواس راستہ سے دور کر دے جس میں ہلاکت ہے اور اس راستہ کی طرف رہنمائی کر دے جس میں سلامتی ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے آپ عراق جا رہے ہیں۔ ‘‘ ’’میں آپ کے لئے شقاق و اختلاف سے پناہ مانگتا ہوں۔ میں آپ کی ہلاکت سے ڈرتا ہوں۔ میں عبداللہ بن جعفر اور یحیی بن سعیدکوآپ کے پاس بھیج رہا ہوں، ان کے ساتھ واپس چلے آئیے۔ میرے پاس آپ کے لے لئے امن، سلامتی، نیکی، احسان اور حسن جواز ہے۔ اللہ اس پر شاہد ہے وہ ہی اس کا نگہبان اور کفیل ہے۔ ‘‘والسلام! |