قاتل اور مقتول میں گفتگو امیرالمومنین گھر پہنچائے گئے۔ آپ نے قاتل کو طلب کیا وہ سامنے آیا تو فرمایا:”او دشمن خدا!کیا میں نے تجھ پراحسان نہیں کئے تھے ؟”اس نے کہا:”ہاں !”فرمایا:پھرتو نے یہ حرکت کیوں کی؟‘‘کہنے لگا:”میں نے اسے (تلوار کو)چالیس دن تیز کیا اور خداسے دعا کی تھی کہ اس سے اپنی بدترین مخلوق قتل کرائے۔ "فرمایا:میں سمجھتا ہوں تو اسی سے قتل کیا جائے اور خیال کرتا ہوں تو ہی خدا کی بدترین مخلوق ہے۔ ‘‘[1] آپ کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پکار کر کہا:او دشمن خدا!تو نے امیرالمومنین کو قتل کر ڈالا۔ "کہنے لگا:میں نے امیرالمومنین کو قتل نہیں کیا، البتہ تمہارے باپ کو قتل کیا ہے۔ "انہوں نے خفا ہو کرو اللہ!میں امید کرتی ہوں، امیرالمومنین!کا بال بیکا نہ ہو گا۔ "کہنے لگا:”پھرٹسوے کیوں بہاتی ہو؟”پھر بولا:بخدا میں نے مہینہ بھراسے (تلوار کو)زہر پلایا ہے، اگر اب بھی یہ بے وفائی کرے تو اللہ اسے غارت کر دے۔ ‘‘[2] امیرالمومنین نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا:”یہ قیدی ہے، اس کی خاطر تواضع کرو، اچھا کھانا دو، نرم بچھونا دو۔ اگر زندہ رہوں گا تو اپنے خون کا سب سے زیادہ دعویدار میں ہوں گا۔ قصاص |