اس کے آواز دینے پر آپ بمشکل یہ شعر پڑھتے ہوئے مسجد کی سمت کو چلے۔ اشدد حیازیمک للموت فان الموت الیک (موت کے لئے کمرکس لے کیونکہ موت تجھ سے ضرور ملاقات کرنے والی ہے ) ولاتجزع من الموت اذاخل بوادیک[1] (موت سے نہ ڈر، اگر وہ تیرے ہاں نازل ہو جائے ) آپ جونہی آگے بڑھے، دو تلواریں چمکتی نظر آئیں اور ایک آواز بلند ہوئی، ’’حکومت خدا کی ہے نہ کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیر!شبیب کی تلوار تو طاق پر پڑی، لیکن ابن ملجم کی تلوار آپ کی پیشانی پر لگی اور دماغ میں اتر گئی۔[2] نیز پکارے قاتل جانے نہ پائے، لوگ ہر طرف سے ٹوٹ پڑے۔ شبیب تو نکل بھاگا۔‘‘[3] عبدالرحمن نے تلوار گھمانا شروع کر دی اور مجمع کو چیرتا ہوا آگے بڑھا۔ قریب تھا کہ ہاتھ سے نکل جائے، لیکن مغیرہ بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب جو اپنے وقت کے پہلوان تھے، نے بھاری کپڑا اس پر ڈال دیا اور زمین پردے مارا۔ [4] |