Maktaba Wahhabi

612 - 702
علامہ محمد طاہر نے اپنی کتاب ’’مجمع بحار الأنوار‘‘ میں علامہ طیبی سے نقل کیا ہے: ’’ألا تعلمین ھذہ رقیۃ النملۃ کما علمتیہا الکتابۃ و ھذہ إشارۃ إلی حفصۃ، والنملۃ قروح ترقی فتبرأ بإذن اللّٰه ، وقیل: أراد قولا یسمیہا رقیۃ النملۃ، و ھي العروس الخ فأراد بہ التعریض بتأدیب حفصۃ حیث أشاعت سرہ، ویاء ’’علمتیھا‘‘ للإشباع، قال: لأن ما ذھبوا إلیہ من رقیۃ خرافات ینھی عنھا، فکیف یأمر بتعلیمھا؟ أقول: یحتمل علی إرادۃ الثانیۃ أن یکون تحضیضا علی تعلیم الرقیۃ وإنکار الکتابۃ، أي ھلا علمتیھا ما ینفعھا من الاجتناب عن عصیان الزوج کما علمتیھا ما یضرھا من الکتابۃ، وعلی الإرادۃ الأولی أن یتوجہ الإنکار علی الجملتین جمیعا، لأن الرقیۃ المتعارفۃ منافیۃ لحال المتوکلین‘‘ انتھی [ تم اسے مرض نملہ کے جھاڑ پھونک کی تعلیم کیوں نہیں دیتی، جیسا کہ تم نے اسے کتابت کی تعلیم دی ہے اس حدیث میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ ہے۔ نملہ ایک طرح کا پھوڑا ہے، جو جھاڑ پھونک کے ذریعے خدا کے حکم سے اچھا ہوجاتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ رقیۃ النملہ کا معنی دلہن ہے، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے لیے بطور تعریض فرمایا۔ کیونکہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کر دیا تھا۔ ’’علمتیہا‘‘ میں ’’یا‘‘ اشباع کی ہے، کیونکہ دوسری حدیثوں میں آپ نے جھاڑ پھونک سے منع فرمایا ہے، پھر کیسے اس کی تعلیم کا حکم دے سکتے ہیں ؟ میں کہتا ہوں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول) دوسرے معنی کا بھی احتمال رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ جھاڑ پھونک کی تعلیم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زجر د تو بیخ فرمائی ہو اور خط کتابت کی تعلیم سے انکار۔ اس احتمال کی بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا معنی یہ ہوگا کہ اے شفا بنت عبد اللہ تم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو شوہر کی نافرمانی سے بچنے کی تعلیم کیوں نہیں دیتی، جیسا کہ تم نے اس کو کتابت کے نقصان کی تعلیم دی ہے؟ پہلے احتمال کی بنیاد پر دونوں جملہ کی نفی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ مروج جھاڑ پھونک اصحابِ توکل کے حال کے منافی ہے]
Flag Counter