یہ تاویل قابل قبول نہیں ، بلکہ یہ تاویل قلتِ علم، متونِ حدیث سے ناواقفیت اور طریقِ حدیث سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔
حافظ ابن حجرنے ’’اصابہ‘‘ میں لکھا ہے:
’’وأخرج ابن مندۃ حدیث رقیۃ النملۃ من طریق الثوري عن ابن المنکدر عن أبي بکر بن سلیمان بن أبي حثمۃ عن حفصۃ أن أمراۃ من قریش، یقال لھا: الشفاء، کانت ترقي النملۃ، فقال النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم : علمیہا حفصۃ، وأخرجہ ابن مندۃ وأبو نعیم مطوّلاً من طریق عثمان بن عمرو ابن عثمان بن سلیمان بن أبي حثمۃ عن أبیہ عمرو عن أبیہ عثمان عن الشفاء أنھا کانت ترقی في الجاھلیۃ، وأنھا لما ھاجرت إلی النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم ، وکانت قد بایعہ بمکۃ قبل أن یخرج، فقدمت علیہ، فقالت: یا رسول اللّٰه ، إني قد کنت أرقي برقی في الجاھلیۃ، فقد أردت أن أعرضھا علیک، قال: فأعرضیھا، قالت: فعرضتھا علیہ، وکانت ترقي من النملۃ، فقال: ارقي بھا وعلمیھا حفصۃ‘‘[1]
[ حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ قریش کی ایک عورت جس کو شفا کہا جاتا تھا، وہ مرض نملہ کا علاج جھاڑ پھونک سے کیا کرتی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ حفصہ کو بھی اس کی تعلیم دو۔ ابو مندہ اور ابو نعیم نے ایک دوسری سند سے ایک طویل روایت نقل کی ہے: الشفاء فرماتی ہیں کہ وہ زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کیا کرتی تھیں ۔ ہجرت کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ ہجرت سے قبل مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت ہوئیں ۔ خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں زمانہ جاہلیت میں جھاڑپھونک کرتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت فرمائی تو انہوں نے مرض نملہ کے جھاڑ پھونک سے متعلق بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جھاڑپھونک کرو اور حفصہ کو بھی اس کی تعلیم دو]
پس اس روایت سے علامہ طیبی رحمہ اللہ کی تاویل کا باطل ہونا اور تعلیم کتابت نسواں کے جواز کا
|