امہات المومنین کے ساتھ مخصوص کرکے ان کی فضیلت ثابت کی ہے اور عدم جواز کی حدیث کو عام عورتوں پر محمول کیا ہے، اس لیے کہ فتنہ و فساد کا اندیشہ ہے، جبکہ ان کی ذات ان تصورات سے بالا تر ہے۔‘‘
ایسا ہی شرح المصابیح از شیخ محمد بن عبد اللطیف المعروف بہ ابن ملک میں مذکور ہے۔
میں کہتا ہوں : حیرت ہے، بعض بزرگان نے عجیب طرح کے احتمالات پیدا کر دیے ہیں ۔ شارحین مشکوۃ جوازِ تعلیم کو صرف حفصہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ مخصوص ہونا ہرگز ثابت نہیں کرسکتے، بلکہ یہ بات خود کسی محکم دلیل کی محتاج ہے۔ ورنہ ہر آدمی یہ دعویٰ کرنا شروع کردے گا کہ فلاں حکم فلاں کے ساتھ خاص ہے، ہم اس کے پابند نہیں ۔ اس طرح تو اسلام میں تنگ نظری کا راستہ کھل جائے گا۔ اس سے قطع نظر یہ حدیثِ شفا قابل حجت ہے اور اس میں کسی قسم کی تخصیص کا کوئی احتمال نہیں ہے۔ اگر حفصہ رضی اللہ عنہا کی تخصیص ہوتی تو پھر شفا رضی اللہ عنہا کتابت کیوں کرتی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے اعتراض کرنے کے اجازت کیوں دی؟ یہ کسی قسم کی تخصیص نہ ہونے پر اولین دلیل ہے۔ کسی امر کا سلف کے لیے جائز ہونا اور خلف کے لیے ناجائز ہونا، یہ احتمال ترجیح بلا مرجح ہے۔ بلکہ امت محمدیہ کا ہر فرد حلال و حرام میں برابر کا شریک ہے، سوائے اس کے کہ شارع نے کوئی تخصیص کی ہو۔ رہا تعلیم نسواں سے فتنہ و فساد کا اندیشہ تو یہ احتمال گذشتہ زمانہ میں بھی تھا۔ قرآن کی یہ آیت کریمہ اس بات کی واضح دلیل ہے:
{ وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنْکُمْ وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِیْنَ} [الحجر: ۲۴]
یعنی اور تم میں سے آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے بھی ہمارے علم میں ہیں ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ عورتوں کوتعلیم کتابت کے سلسلے میں کوئی قباحت و کراہت نہیں ۔ بالغ خواتین کی تعلیم صرف خواتین سے یا ان کے محرمات سے ہی دلانا جائز ہے، جبکہ نابالغ لڑکیوں کو کسی سے بھی لکھنے پڑھنے کی تعلیم دلوائی جا سکتی ہے۔ خواتین کی تعلیم فتنہ کا باعث نہیں ، کیونکہ اگر ایسا ہوتا توشارع اس کی اجازت نہ دیتے۔ { وَ مَاکَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا} اگر فتنہ واقع بھی ہو تو اس کا تعلق کسی دیگر وجوہ سے ہوگا، نفس تعلیم کتابت سے نہیں ۔ واللہ اعلم
|