Maktaba Wahhabi

610 - 702
تفاسیر سے فائق تر ہے۔ لہٰذا بغوی کی بیان کردہ حدیث کسی طالب حق کے لیے قابل حجت نہیں ہوسکتی۔ نہی کی حدیث بغوی نے محمد ابراہیم الشامی عن شعیب بن اسحاق عن ہشام بن عروۃ عن ابیہ عن عائشہ روایت کی ہے اور اس روایت کا باطل ہونا ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں ۔ علامہ علاء الدین خازن نے اپنی تفسیر میں بلا سند حدیثِ عائشہ بیان کی ہے۔ لہٰذا اسے دلیل و حجت کا معیار کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ ہاں ! ابن جریر، ابن کثیر ، بغوی، سیوطی اور خازن جیسے علما اگر عدم جواز کی حدیث اپنی تفاسیر میں بیان کر کے اس کی صحت پر کلام کرتے تو قابل حجت اور قابل اعتبار ہوسکتی تھی۔ وإذ لیس فلیس! اگر کوئی یہ کہے کہ علامہ علی قاری نے ’’مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح‘‘ میں حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’قلت: یحتمل أن یکون جائزا للسلف دون الخلف، لفساد النسوان فی ھذا الزمان، ثم رأیت قال بعضھم: خصت بہ حفصۃ لأن نساء النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم خصصن بأشیاء، قال تعالی: { یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ} وخبر: لا تعلموھن الکتابۃ، یحمل علی عامۃ النساء خوفا للافتنان علیھن‘‘[1] انتھی [یہ حدیث سلف کے لیے خلف کے برعکس جواز کا احتمال رکھتی ہے، کیونکہ یہ ہمارے زمانے میں عورتوں کے لیے فتنہ و فساد کا موجب ہے، جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص کرکے دلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اور یہ عام عورتوں کی تعلیم کے لیے بہ خوف فتنہ و فساد عدم جواز کے لیے پیش کیا ہے] شیخ عبدالحق دہلوی ’’أشعۃاللمعات‘‘ شرح فارسی مشکوۃ میں فرماتے ہیں : ’’یہ حدیث عورتوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے جواز میں ہے۔ دوسری حدیثیں عدم جواز کی بھی آئی ہیں ۔ چنانچہ آیا ہے کہ خواتین کو لکھنا پڑھنا مت سکھاؤ اور اس مفہوم کی دیگر احادیث۔ لیکن جواز کی حدیث عدم جواز کی حدیث سے مقدم ہے۔ بعض نے اسے
Flag Counter