بعض علما جانوروں کے خصی کرنے کے حق میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں ، جسے امام بخاری نے ’’باب لا یؤخذ في الصدقۃ ھرمۃ، ولا ذات عوار، ولا تیس إلا ما شاء المصدق‘‘ میں نقل کیا ہے:
’’حدثنا محمد بن عبد اللّٰه قال: حدثني أبي قال: حدثني ثمامۃ أن أنسا حدثہ أن أبا بکر کتب لہ التي أمر اللّٰه و رسولہ صلی اللّٰهُ علیه وسلم : ولا یخرج في الصدقۃ ھرمۃ، ولا ذات عوار، ولا تیس إلا ما شاء المصدق‘‘ وکذا أخرجہ الإمام أحمد و أبو داود وغیرھما[1]
[حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انھیں اللہ اور اس کے رسول کے احکام لکھ کر دیے ہیں ، جن میں صدقے کا بیان تھا۔ لکھا تھا کہ صدقہ میں بہت بوڑھا یا عیب دار جانور اور سانڈ نہ لیاجائے ا لاّ یہ کہ صدقہ وصول کرنے و الااسے قبول کرلے۔ امام احمد اور ابوداود وغیرہ نے بھی یہ روایت نقل کی ہے]
ان کا کہنا ہے کہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو اچھی چیزوں کے کھانے پینے کی اجازت دی ہے اور ان چیزوں کی نشاندہی فرمائی ہے۔ عرب اور عجم کے لوگ اکثر اونٹ، گائے ، بکروں اور بھیڑوں کے گوشت استعمال کرتے تھے، ان میں خصی کردہ جانوروں کے گوشت ان کے نزدیک زیادہ لذیذ اور مرغوب ہیں ۔ نیز یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ غیر آختہ شدہ بکرے اور بھیڑ (بوتو اور سانڈ وغیرہ) کا گوشت بہت ہی بدبو دار اور بد ذائقہ ہوتا ہے۔ اس کی بو بھی ناقابل برداشت ہوتی ہے، نتیجتاً کھانے کے لیے اس کا استعمال مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرخصی شدہ جانوروں کو زکات میں دینے سے ممانعت فرمائی ہے، اس لیے کہ اس کا گو شت خراب ہوتا ہے۔
چنانچہ قسطلانی ’’ارشاد الساری شرح صحیح بخاری‘‘ میں کہتے ہیں :
’’ولا تیس۔ وھو فحل الغنم، أو مخصوص بالمعز، لقولہ تعالی: { وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ} ‘‘[2] انتھی
[نہ ’’تیس‘‘ لیا جائے۔ ’’تیس‘‘ بھیڑوں کے نر کو کہتے ہیں ، جو افزایش نسل کے لیے بکری
|