Maktaba Wahhabi

588 - 702
سے مخصوص ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق: خبیث چیزوں کا قصد نہ کرو، جنھیں تم دینا تو پسند کرتے ہو، لینا نہیں ] شیخ الاسلام دہلوی صحیح بخاری کی فارسی شرح میں لکھتے ہیں : ’’نر بکرا جسے فارسی میں تکہ (اردو میں بوتو )کہتے ہیں صدقے میں نہ دیا جائے، کیونکہ اس کا گوشت بہت بدبودار ہوتا ہے اور خرابی سے پاک نہیں ، البتہ افزایشِ نسل کے لیے یہ ضروری ہے۔‘‘ ختم شد ’’صراح‘‘ اور ’’منتہی الارب‘‘ میں ہے : ’’تیس تکۃ وتیوس أتیاس جماعۃ‘‘[1] [’’تیس‘‘ بوتو کو کہتے ہیں ۔ ’’تیوس‘‘ اور ’’أتیاس‘‘ اس کی جمع ہے] حافظ ابن حجر ’’فتح الباری‘‘ میں کہتے ہیں : ’’التیس ھو فحل الغنم‘‘[2] انتھی [ التَیس: بھیڑ، بکری کے نر (بوتو) کو کہتے ہیں ] اس کا اطلاق خصی شدہ بکرے اور دنبے پر نہیں ہوتا، بلکہ صرف غیر خصی شد ہ کو ’’تیس‘‘ کہتے ہیں ۔ کما في الحدیث الطویل عن أنس مرفوعاً، و فیہ: ’’فإذا بلغت ستا و أربعین، ففیھا حقۃ طروقۃ الفحل‘‘ أخرجہ أبو داود و غیرہ بلفظ الفحل، وأما البخاري فبلفظ الجمل۔[3] [ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ایک حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ جب اونٹ کی تعداد چھیالیس تک پہنچ جائے تو اس کی زکات ایک حِقّہ (ایسی اونٹنی جو نر کی جفتی کے قابل ہو) ہے۔ اسے ابو داود غیرہ نے لفظ ’’الفحل‘‘ کے ساتھ نقل کیا ہے، مگر بخاری نے لفظ ’’الجمل‘‘ کے ساتھ اسے ذکر کیا ہے] یہاں تک تو ان لوگوں کی دلیل کا ذکر ہوا جو خصی کرنا جائز قرار دیتے ہیں ۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ اس سے خصی کرنے کے جواز پر استدلال درست نہیں ۔ اس لیے کہ ’’تَیسْ‘‘ کو زکات میں
Flag Counter