اسی معنی میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بیان ہوئی ہے، یعنی یہ ایسا کام نہیں جسے ہم ہاشمیوں کے لیے خاص کیا جاتا۔ دوسرے تمام لوگ اس حکم میں شامل نہیں یعنی انھیں رخصت ہے۔ اہل بیت کو صرف تین چیزوں میں دوسروں سے ممتاز کیا گیا ہے۔ ایک اسباغ الوضوء یعنی ہر عضو کو تین تین بار دھوئیں ، جبکہ دوسرے اگر ایک ایک دو دو بار بھی دھو لیں تو مضائقہ نہیں ۔ دوسرے یہ کہ صدقہ نہیں کھاتے اور گھوڑے گدھے میں جفتی نہیں کراتے۔ یہی حکم ہاشمیوں کے لیے ان کے شرفِ شان کی وجہ سے ہے۔ کسی معصیت کی وجہ سے یہ تخصیص نہیں ، اگر اس میں معصیت کو دخل ہوتا تو ہاشمیوں کی تخصیص نہ ہوتی کہ اوامر و نواہی میں امت محمدیہ برابر ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ گھوڑے اور گدھے کی جفتی کرنا اور اسباغ الوضوء نہ کرنا ہاشمیوں کے علو شان کے خلاف ہے، البتہ غیر ہاشمی اس حکم سے الگ ہیں ۔ ہاشمیوں کے لیے ان تینوں باتوں کا حکم ان کی شان کی وجہ سے باقی ہے اور یہی ہمارا مدعا ہے۔
2۔اگر کوئی کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول (( إنما یفعل ذلک الذین لا یعلمون )) کا کیا مطلب ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھوڑے کے حصول اور اس کے استعمال میں جو اجر اور فائدہ ہے، وہ خچر میں نہیں ۔ اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑے کے فوائد بہ نسبت خچر کے بہت ہیں ، جو گدھے اور گھوڑے کے ملاپ سے نادان لوگ حاصل کرتے ہیں ۔ گویا وہ ایسی چیز پر توجہ نہیں کرتے جس میں اجر ہے ، بلکہ ایسی چیزوں پر توجہ د یتے ہیں جس میں اجر نہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ اور ابن عمر کی حدیث میں مروی ہے، جسے ائمہ صحاح نے روایت کیا ہے:
’’عن أبي ھریرۃ قال: سئل رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم عن الخیل، فقال ھي لثلاثۃ: لرجل أجر، ولرجل ستر، ولرجل وزر، قالوا: فالحمر یا رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم ؟ قال: لم ینزل علي في الحمر شيء إلا ھذہ الآیۃ الفاذۃ: { فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ . وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ} أخرجہ أصحاب الصحاح وغیرہ‘‘[1]
’’وعن ابن عمر عن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم قال: الخیل معقود في نواصیہا الخیر إلی
|