Maktaba Wahhabi

574 - 702
’’قال القرطبي: الخصاء في غیر بني آدم ممنوع في الحیوان إلا لمنفعۃ حاصلۃ في ذلک کتطییب اللحم أو قطع ضرر عنہ ، وقال النووي: یحرم خصاء الحیوان غیر المأکول مطلقا، وأما المأکول فیجوز في صغیرہ دون کبیرہ، وما أظنہ یدفع ما ذکرہ القرطبي من إباحۃ ذلک في الحیوان الکبیر عند إزالۃ الضرر‘‘[1] انتھی [ قرطبی فرماتے ہیں کہ جانوروں کا خصی کرنا بھی درست نہیں ، سوائے اس کے کہ اس سے گوشت کو بہتر بنانا یا اس کے ضرر سے محفوظ رہنا مقصود ہو۔ علامہ نووی کہتے ہیں کہ جن جانوروں کا گوشت حرام ہے، ان کا خصی کرنا مطلقاً ممنوع ہے، البتہ حلال جانوروں کا چھوٹی عمر میں خصی کرناجائز ہے، بڑی عمر میں نہیں ۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ نووی کے اس بیان سے قرطبی کے مذکورہ بالا قول کی تردید مقصود نہیں ہے، جس میں انھوں نے دفع ضرر کے لیے بڑے جانوروں کے خصی کرنے کو بھی جائز قرار دیا ہے] طحاوی ’’شرح معانی الآثار‘‘ میں کہتے ہیں : ’’وخالفھم في ذلک آخرون فقالوا: ما خیف عضاضہ من البہائم أو ما أرید شحمہ منہا فلا بأس بإخصائہ، وقالوا: ھذا الحدیث الذي احتج بہ علینا مخالفنا إنما ھو عن ابن عمر موقوف، ولیس عن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم ‘‘[2] انتھی [ دوسروں نے اس مسئلے میں خصی جائز نہ قرار دینے والوں سے اختلاف کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ضرر سے بچنے کے لیے یا گوشت کو بہتر بنانے کی غرض سے خصی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ مزید کہتے ہیں کہ جس حدیث سے مخالفین نے استدلال کیا ہے، وہ ابن عمر پر موقوف ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی نہیں ۔ختم شد] اگر تمھارے ذہن میں اشکال ہے کہ کوئی چیز اسی وقت پسندیدہ ہو سکتی ہے، جب وہ شرعی طور پر ممنوع طریقے سے حاصل نہ ہو، ورنہ اس کی پسندیدگی ممنوع طریقے کی تائید اور اس عمل کے مرتکب
Flag Counter