ان جانوروں کا خصی کرنا جائز قرار دیتے ہیں ، جن کا گوشت کھایا جاتا ہے۔
’’ شرح معانی الآثار‘‘ میں مذکور ہے :
’’حدثنا ابن أبي عمران قال: ثنا عبید اللّٰه قال ثنا سفیان عن ابن طاؤس أن أباہ أخصی جملا لہ ‘‘[1]
[طاؤس نے اپنے اونٹ کا آختہ کیا تھا]
’’حدثنا ابن أبي عمران قال: ثنا عبید اللّٰه قال: ثنا سفیان عن مالک بن مغول عن عطاء قال: لا بأس بإخصاء الفحل إذا خشي عضاضہ‘‘[2] انتھی
[عطا کا قول نقل کیا گیا ہے کہ اگر نر جانور دانت کاٹنے لگے تو اس کے خصی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ختم شد]
تفسیر ’’معالم التنزیل‘‘ میں ہے:
’’وقد جوزہ بعضہم في البھائم لأن فیہ غرضا ظاھرا ‘‘[3]
[بعض علما نے جانوروں کا خصی کرنا جائز قرار دیا ہے ، اس لیے کہ اس کی غرض اور فائدہ معلوم ہے]
امام نووی رحمہ اللہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں :
’’فإن الإخصاء في الآدمي حرام، صغیرا کان أو کبیرا، قال البغوي: و کذا یحرم خصاء کل حیوان لا یؤکل، و أما المأکول فیجوز خصاؤہ في صغرہ، ویحرم في کبرہ، واللّٰه أعلم ‘‘[4]
[آدمی کا خصی کرنا حرام ہے چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ امام بغوی فرماتے ہیں کہ جن جانوروں کا گوشت حلال نہیں ان کے بارے میں یہی حکم ہے ۔ البتہ حلال جانوروں کا خصی کرنا چھوٹی عمر میں جائز ہے اور بڑی عمر میں حرام ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’فتح الباری شرح صحیح بخاری‘‘ میں فرماتے ہیں :
|