[لغت میں لفظ حدیث قدیم کا ضد ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، عمل، کسی بات پر خاموشی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و احوال کا بیان ہے، حتی کہ آپ کے سونے اور جاگنے میں ہونے والی حرکات و سکنات بھی حدیث ہیں ۔ختم شد]
قاضی زکریا الانصاری ’’فتح الباقي شرح ألفیۃ العراقي‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’والحدیث، و یرادفہ الخبر، علی الصحیح ما أضیف إلی النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم قولا، وفعلا، وتقریرا أو صفۃ ‘‘[1] انتھی مختصرا
[ حدیث کا مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، عمل، کسی عمل پر خاموشی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ کا بیان ہے]
شیخ علی بن صلاح الدین ’’منہل الینابیع في شرح المصابیح‘‘ کے باب الصلوٰۃ میں فرماتے ہیں :
’’قولہ: فسکت عنہ رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم ، و سکوتہ یدل علی جواز أداء سنۃ الصبح بعد أداء فریضۃ لمن لم یصلھا قبلہ‘‘
[حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد فجر کی دو سنتیں ادا کرنے پر سکوت فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے پہلے سنت ادا نہیں کی، وہ فرض کے بعد ادا کر سکتا ہے۔ یہ جائز امر ہے اور اس کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی ہے]
امام زینی شرح مصابیح میں فرماتے ہیں :
’’قولہ: فسکت۔ یدل علی جواز سنۃ الصبح بعد فریضۃ لمن لم یصلھا قبلہ‘‘ انتھی
[آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس نے پہلے سنتیں ادا نہ کی ہوں ، وہ فجر کی فرض نماز کے بعد انھیں ادا کر لے]
پس مسند بزار کی حدیث اور ان حدیثوں کے درمیان تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ ان جانوروں کا خصی کرناجائز ہے جن کا گوشت کھایا جاتا ہے، مگر جن جانوروں کا گوشت نہیں کھا یا جاتا، ان کا خصی کرنا درست نہیں ۔ اسی بنا پر ائمہ متقدمین میں طاؤس و عطاء وغیرہ اور اکثر علماے متاخرین
|