Maktaba Wahhabi

571 - 702
ابو جعفر طحاوی نے ’’شرح معانی الآثار‘‘ میں دوسری جگہ فرمایا ہے: ’’ألا تری إلی عمر بن عبد العزیز أنہ أتي بعبد خصي یشتریہ، فقال: ما کنت لأعین علی الإخصاء، فجعل ابتیاعہ إیاہ عونا علی إخصائہ، فکذلک إخصاء الغنائم، لو کان مکروھا لما ضحی رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم بما قد أخصي منھا، ولا یشبہ إخصاء البھائم إخصاء بني آدم، لأن إخصاء البھائم إنما یراد بہ ما ذکرنا من سمانتہا، وقطع عضھا فذلک مباح، وبنوآدم فإنما یراد بإخصائھم المعاصي فذلک غیر مباح‘‘[1] انتہی [حضرت عمر بن عبد العزیز کے پاس خصی کردہ غلام فروخت کے لیے لایا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں خصی کرنے کی تائید و حمایت نہیں کرتا۔ گویا انہوں نے اس کی خریداری کو اس عمل کی تائید سمجھا۔ پس اگر جانوروں کا خصی کرنا بھی مکروہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خصی شدہ جانور کی قربانی ہرگز نہ کرتے۔ جانوروں کے خصی کرنے کو انسانوں کے خصی کرنے کے مثل قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جانوروں کو خصی صرف گوشت کو بہتر بنانے کے لیے کیا جاتا ہے، اس لیے یہ مباح ہے اور انسانوں کا خصی کرنا گناہ ہے، اس لیے ہرگز جا ئز نہیں ] جانوروں کو خصی کرنا اگر ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سکوت نہ فرماتے، بلکہ مرتبہ رسالت کے پیش نظر ممنوع چیز کے ارتکاب پر ناراضی کا اظہار کرتے اور عادت شریفہ کے مطابق فرماتے کہ لوگو ں کو کیا ہو گیا ہے کہ اس طرح کے کام کرتے ہیں ؟ اس فعل پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی اس کے جواز کی دلیل ہے۔ یہ مسئلہ اصولِ حدیث کی کتابوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ علامہ شیخ شمس الدین سخاوی ’’فتح المغیث شرح ألفیۃ الحدیث‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’والحدیث في اللغۃ ضد القدیم، و في اصطلاحھم: قول رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم وسلم، و فعلہ، و تقریرہ، و صفتہ، حتی في الحرکات والسکنات في الیقظۃ والنوم‘‘[2] انتھی
Flag Counter