Maktaba Wahhabi

570 - 702
ہوا۔ یہ بات ابو موسیٰ اصفہانی نے کہی ہے۔ جبکہ جوہری اور دوسرے علما کہتے ہیں کہ وِجاء کے معنی خصیے کی نسوں کو کوٹ دینے کے ہیں ۔الہروی کہتے ہیں کہ دونوں خصیے اپنی جگہ برقرار ہوں ۔ النہایہ میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگ ’’موجیین‘‘ (بغیر ہمزہ) کے روایت کرتے ہیں اور ہمیں بھی اسی طرح روایت پہنچی ہے] حافظ ابن حجر نے تلخیص الحبیر میں فرمایا ہے: ’’الموجوئین: المنزوعي الأنثیین‘‘[1] انتھی [’’موجوئین‘‘ کا مطلب ہے خصیے نکالے ہوئے] پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی شدہ نر دنبوں کی قربانی کی ہے، بلکہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا ارادہ فرماتے تو خصی شدہ نر دنبے خریدا کرتے تھے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خصی شدہ جانور کا گوشت پسند فرماتے تھے اور ظاہر ہے کہ صاحب شریعت صرف جائز اور مباح چیز ہی پسند فرمایا کرتے تھے۔ چونکہ اس طرح کا گوشت اس وقت تک تیار نہیں ہو سکتا، جب تک جانوروں کو خصی نہ کیا جائے، اس لیے اس حدیث سے خصی کرنے کے جواز کی طرف اشارہ ملتا ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ اگر خصی کرنا فی نفسہ ممنوع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خصی شدہ جانور وں کا گوشت کیسے پسند فرماتے؟ بلکہ اس صورت میں تورغبت کرنے سے ممنوع فعل کی تائید ہوتی۔ اسی لیے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خصی شدہ جانور نہ خریدا اور فرمایا کہ میں جانوروں کو خصی کرنے میں تعاون نہیں کرنا چاہتا۔ چنانچہ شرح معانی الآثار میں ہے: ’’حدثنا ابن أبي داود قال: ثنا القواریري قال: ثنا عفیف بن سالم قال: ثنا علاء بن عیسیٰ الذھبي قال: أتي عمر بن عبد العزیز بخصي فکرہ أن یبتاعہ، وقال: ما کنت لأعین علی الإخصاء‘‘[2] [عمر بن عبد العزیز کے پاس ایک خصی جانور لایا گیا تو انھوں نے اسے خریدنا ناپسند کیا اور فرمایا: میں جانوروں کو خصی کرنے میں تعاون نہیں کرنا چاہتا]
Flag Counter