قولہ: { وَ لَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ} یعني دین اللّٰه عز و جل، و ھذا کقولہ: { فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ} علی قول من جعل ذلک أمرا أي لا تبدلوا فطرۃ اللّٰه ، و دعوا الناس علی فطرتھم‘‘[1] انتھی
[ابن عباس ایک روایت کے مطابق اور مجاہد ، عکرمہ، ابراہیم نخعی، حسن بصری، قتادہ، الحکم، السدی، الضحاک اور عطا خراسانی نے آیت { وَ لَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ} کی تفسیر دین اللہ سے کی ہے ۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ} جس نے اسے امر بنایا ہے۔ یعنی اللہ کی فطرت کو نہ بدلو اور لوگوں کو اپنی فطرت پر چھوڑ دو۔ ختم شد ]
جب سلف صالحین کے اقوال دونوں طرح کے موجود ہیں تو آیت کی تفسیر میں جانوروں کو خصی کرنے کی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی، ہاں اگر سنت نبویہ سے اس کا ثبوت ہوتا تو پھر یہ ہمارے سر اور آنکھوں پر ہوتا۔ وإذ لیس فلیس۔ بلکہ آیت کریمہ { لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ} اسی معنی کی تائید کرتی ہے کہ آیت کریمہ { فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ} میں لفظ { خَلْقَ اللّٰہِ} سے ’’دین اﷲ‘‘ ہی مراد ہے اور یہ ظاہر بات ہے۔
رہی طحاوی کی پہلی روایت تو وہ ضعیف ہے، لہٰذا قابل استدلال نہیں ۔ اس کی سند میں ایک راوی عبد اللہ بن نافع مولی ابن عمر ہے، جو اپنے باپ سے روایت کرتا ہے اور وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
’’قال ابن المدیني: روی مناکیر، وقال البخاري: یخالف في حدیثہ، و ھو منکر الحدیث، وقال یحییٰ: ضعیف، وقال النسائي: متروک‘‘ کذا في میزان الاعتدال في نقد الرجال للحافظ شمس الدین الذھبي۔[2]
[ ابن المدینی نے کہا ہے کہ اس نے مناکیر روایت کی ہیں ۔ امام بخاری نے بھی اسے منکرالحدیث کہا ہے اور فرمایا کہ اپنی حدیث میں مخالف کرتا ہے۔ یحییٰ نے ضعیف قرار دیا ہے اور نسائی نے متروک۔ جیسا کہ ذہبی کی ’’میزان الاعتدال فی نقد الرجال‘‘ میں مرقوم ہے]
|