Maktaba Wahhabi

551 - 702
لہ، ولیس بإشراک في العبودیۃ لعصمۃ آدم، روی سمرۃ عن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم قال: ولما حملت حواء طاف بھا إبلیس، وکان لا یعیش لھا ولد فقال: سمیہ عبد الحارث، فإنہ یعیش، فسمتہ فعاش فکان ذلک من وحي الشیطان، وأمرہ، رواہ الحاکم وقال: صحیح، والترمذی وقال: حسن غریب‘‘[1] انتھی [’’وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا۔‘‘ یعنی آدم علیہ السلام سے ’’اور اس سے اس کا جوڑا بنایا۔‘‘ یعنی حوا علیہا السلام ’’تاکہ وہ اس کی طرف (جا کر) سکون حاصل کرے‘‘ اور اس سے مانوس ہوجائے ’’پھر جب اس نے اس (عورت) کو ڈھانکا‘‘ یعنی اس سے جماع کیا۔ ’’تو اس نے ہلکا سا حمل اٹھا لیا‘‘ یعنی نطفہ ٹھہر گیا۔ ’’پس وہ اسے لے کر چلتی پھرتی رہی‘‘ یعنی حمل کے ہلکا ہونے کی وجہ سے آتی جاتی رہی۔ ’’پھر جب وہ بھاری ہوگئی۔‘‘ یعنی اپنے پیٹ میں بچے کے بڑا ہونے کی وجہ سے اور وہ دونوں اس بات سے ڈرے کہ وہ کہیں چوپایہ نہ ہو۔ ’’تو دونوں نے اﷲ سے دعا کی جو ان کا رب ہے کہ بے شک اگر تونے ہمیں عطا کیا‘‘ یعنی لڑکا ’’تندرست‘‘ صحیح الاعضاء۔ ’’تو ہم ضرور ہی شکر کرنے والوں سے ہوں گے۔‘‘ یعنی (اے اﷲ! ہم) تیرے اس تندرست بچے کی عطا پر شکر گزار ہوں گے۔ ’’پھر جب اس نے انھیں عطا کیا‘‘ یعنی بچہ۔ ’’تندرست تو دونوں نے اس کے لیے اس میں شریک بنا لیے‘‘ ایک قراء ت میں شین کی زیر اور تنوین کے ساتھ ہے، یعنی شریک ’’اس میں جو اس نے انھیں عطا کیا تھا۔‘‘ یعنی اس کا نام عبدالحارث رکھ کر، حالانکہ اس کے لیے لائق نہیں کہ وہ سوائے اﷲ کے کسی کا بندہ ہو۔ ان کا یہ نام رکھنا شرک فی العبادت کے زمرے میں نہیں آتا، کیونکہ آدم علیہ السلام اس شرک سے معصوم اور محفوظ ہیں ۔ سمرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ جب حوا[ کا کوئی بچہ زندہ نہ رہتا تھا تو ابلیس نے کہا: اس (حمل میں موجود لڑکے) کا نام عبدالحارث رکھو تو وہ زندہ رہے گا۔
Flag Counter