Maktaba Wahhabi

550 - 702
اس پیدا ہونے والے کا نام عبد الحارث رکھ دو۔ ابلیس کوملائکہ حارث کہتے تھے۔حوّا علیہا السلام نے اس کی یہ دھوکا دہی والی بات قبول کر لی۔[1] چنانچہ خداے عزوجل نے قرآن پاک میں بیان فرمایا: { ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ جَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا فَلَمَّا تَغَشّٰھَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِہٖ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّھُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ . فَلَمَّآ اٰتٰھُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآئَ فِیْمَآ اٰتٰھُمَا فَتَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ} [الأعراف: ۱۸۹، ۱۹۰] یعنی وہ خدا ہے کہ جس نے تمھیں ایک جان آدم علیہ السلام سے پیدا کیا اور ان سے ان کی بیوی کو نکالا، تاکہ اس کے ساتھ آرام حاصل کرے، چنانچہ خلوت کے نتیجے وہ حاملہ ہوئی اور بعد ازاں بوجھل ہوگئیں تو دونوں نے دعا مانگی کہ اے پروردگار اگر تو ہمیں نیک لڑکا عطا کرے تو ہم تیرا شکر ادا کریں گے۔ جب اﷲ تعالیٰ نے ان کو نیک لڑکا دیا تو آدم و حوا نے اس کے نام میں خدا کا شریک بنا لیا اور اس کا نام عبداﷲ رکھنے کے بجائے عبدالحارث رکھ دیا، پس اﷲ تعالیٰ بلند ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں ۔ فتح الرحمن اور تفسیر حسینی میں ایسا ہی لکھا ہے۔[2] تفسیر جلالین میں فرمایا: ’’ { ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ} أي آدم { وَ جَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا} حواء } لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا{ و یألفھا } فَلَمَّا تَغَشّٰھَا{ جامعھا } حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا} النطفۃ } فَمَرَّتْ بِہٖ} ذھبت وجاء ت لخفتہ } فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ} بکبر الولد في بطنہا وأشفقا أن یکون بھیمۃ } دَعَوَا اللّٰہَ رَبَّھُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا} ولدا } صَالِحًا} سویا } لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ} لک علیہ } فَلَمَّآ اٰتٰھُمَا} ولدا } صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآئَ} و في قراء ۃ بکسر الشین والتنوین أي شریکا } فِیْمَآ اٰتٰھُمَا} بتسمیتہ عبد الحارث ولا ینبغي أن یکون عبدا إلا
Flag Counter