’’باب تسمیۃ المولود غداۃ یولد لمن لم یعق عنہ، و تحنیکہ۔ عن أبي موسی رضی اللّٰه عنہ قال: ولد لي غلام فأتیت بہ النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم فسماہ إبراھیم، فحنکہ بتمرۃ‘‘[1] رواہ البخاري
[یہ باب بچے کی پیدایش کے وقت نام رکھنے اور اسے گھٹی دینے کے متعلق ہے جس کا عقیقہ کرنے کا پروگرام نہ ہو۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو میں اسے اٹھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھجور کی گھٹی دی۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے]
قسطلانی نے اس کی شرح میں کہا ہے:
’’إن من لم یرد أن یعق عنہ لا تؤخر تسمیتہ إلی السابع، و من یرید أن یعق عنہ تؤخر تسمیتہ إلی السابع‘‘[2]
[جس بچے کا عقیقہ کرنے کے ارادہ نہ ہو تو اس کا نام رکھنا ساتویں دن تک مؤخر نہ کیا جائے اور جس کا عقیقہ کرنے کا پروگرام ہو تو اس کا نام ساتویں دن رکھا جائے]
امام نووی نے اذکار میں کہا ہے:
’’تسن تسمیتہ یوم السابع أو یوم الولادۃ، ولکل من القولین أحادیث صحیحۃ، فحمل البخاري یوم الولادۃ علی من لم یرد العق، و أحادیث یوم السابع علی من أرادہ کما تری‘‘
[مسنون یہ ہے کہ بچے کا نام ساتویں دن یا اس کی پیدایش کے دن رکھا جائے، ان ہر دو قولوں کی تائید میں صحیح احادیث موجود ہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے پیدایش کے دن نام رکھنے کو اس شخص کے حق میں سمجھا ہے، جو عقیقہ نہ کرنا چاہتا ہو اور ساتویں دن نام رکھنے کی احادیث کو اس شخص پر محمول کیا ہے، جو عقیقہ کرنا چاہتا ہو، جیسا کہ آپ اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں ]
|