لہٰذا اذان اور اقامت یا صرف اذان دونوں جائز ہیں ، لیکن ضروری ہے کہ مولود کے کان کے سامنے کہی جائے، اس طرح کہ اس کی آواز کان میں پہنچے۔ یہ جو ہم لوگوں کے یہاں اکثر مقامات پر معمول بنا ہوا ہے کہ مولود کو موذن سے دور رکھتے ہیں ، اس کی کوئی اصلیت نہیں ۔ احادیث سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ ہم نے بلاکم و کاست بیان کردیا ہے۔
یہ بھی مستحب ہے کہ ولادت کے بعد کسی نیک آدمی کے ذریعے مولود کے منہ میں تحنیک کرائی جائے۔ یعنی کھجو ر کو کچل کر اس کا لعاب بچے کے منہ میں دیا جائے، تاکہ اس کا کچھ حصہ اس کے پیٹ میں چلا جائے۔ اگر کھجور میسر نہ ہو تو کوئی بھی میٹھی چیز چبا کر منہ میں دی جائے۔ تحنیک مرد اور عورت دونوں سے کرائی جا سکتی ہے، مگر بہترہے کہ کوئی عالم فاضل یا نیک شخص ہو۔ اگر ایسا کوئی نہ ملے تو پھر کوئی بھی یہ کام کر سکتا ہے۔ چنانچہ امام ابو عبداللہ محمدبن اسمٰعیل بخاری اپنی صحیح میں خود روایت کرتے ہیں :
1۔’’عن أبي موسی قال: ولد لي غلام فأتیت بہ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فسماہ إبراھیم فحنکہ بتمرۃ، ودعا لہ بالبرکۃ، و دفعہ إلي، وکان أکبر ولد أبي موسی‘‘[1] (رواہ البخاري)
[ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو میں اسے اٹھائے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کا نام ابراہیم رکھا اور اسے کھجور کی گھٹی دی اور اس کے لیے برکت کی دعا کر کے مجھے پکڑا دیا۔ وہ بچہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سب سے بڑا لڑکا تھا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے]
2۔’’عن عائشۃ قالت: أتي النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم بصبي یحنکہ فبال علیہ فأتبعہ الماء‘‘[2] (رواہ البخاري)
[عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بچہ لایا گیا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے گھٹی دیں تو اس بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیشاب کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر پانی بہا لیا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے]
3۔’’عن أسماء بنت أبي بکر أنھا حملت بعبد اللّٰه بن الزبیر بمکۃ قالت: فخرجت و أنا متم، فأتیت المدینۃ فنزلت قباء فولدت بقباء، ثم أتیت بہ
|