امام ترمذی فرماتے ہیں :
’’ھذا الحدیث صحیح و العمل علیہ‘‘[1] [یہ حدیث صحیح ہے اور اس پر عمل ہے]
شیخ الاجل محدث الہند ولی اللہ الدہلوی نے ’’حجۃ اللّٰه البالغۃ‘‘ میں فرمایا ہے:
’’وأذن رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم في أذن الحسین بن علي حین ولدتہ فاطمۃ بالصلوۃ۔ أقول: السر في ذلک ما ذکرنا في العقیقۃ من المصلحۃ الملیۃ فإن الأذان من شعائر الإسلام و أعلام الدین المحمدي، ثم لا بد من تخصیص المولود بذلک الأذان، ولا یکون إلا بأن یصوت بہ في أذنہ، وأیضا قد علمت أن من خاصیۃ الأذان أن یضر منہ الشیطان، والشیطان یؤذي الولد في أول نشأتہ‘‘[2] انتھی
[جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حسین بن علی کو جنم دیا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں نماز والی اذان دی۔ میں کہتا ہوں : بچے کے کان میں ولادت کے وقت اذان کہنے کا راز وہ دینی مصلحت ہے، جسے ہم عقیقے کے بیان میں ذکر کر چکے ہیں ۔ اذان اسلام کے شعائر اور دینِ محمدی کی علامات اور نشانیوں میں سے ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ پیدایش کے وقت بچے کے کان میں اذان کہی جائے اور یہ اذان اس کے کان میں بہ آواز بلندی ہونی چاہیے۔ نیز یہ بات تو معلوم ہے کہ اذان کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس سے شیطان کو تکلیف ہوتی ہے اور بچے کی پیدایش کے وقت شیطان بچے کو چوکا مار کر تکلیف دیتا ہے (تو اس لحاظ سے بھی مناسب ہے کہ بچے کے کان میں اذان کہی جائے)]
ابن عابدین ’’رد المحتار‘‘ کے ’’باب الأذان‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’لا یسن لغیرھا أي من الصلاۃ و إلا فندب للمولود‘‘[3] انتھی
[نماز کے علاوہ کسی کام کے لیے اذان کہنا مسنون نہیں ہے، ہاں صرف نومولود بچے کے کان میں اذان کہنا مندوب ہے]
|