امام ابو زکریا نووی اذکار میں فرماتے ہیں :
’’وقد روینا في کتاب ابن السني عن الحسین بن علي رضي اللّٰه عنہما قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم : من ولد لہ ولد فأذن في أذنہ الیمنی، وأقام في أذنہ الیسری لم تضرہ أم الصبیان‘‘[1]
[ابن السنی کی کتاب میں حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اس نے اس بچے کے دائیں کان میں اذان اور اس کے بائیں کان میں اقامت کہی تو اس بچے کو ام الصبیان بیماری نقصان نہیں پہنچائے گی]
علامہ علی قاری نے ’’مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح‘‘ میں کہا ہے:
’’ھذا یدل علی سنیۃ الأذان في أذن المولود‘‘[2]
[اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نومولود بچے کے کان میں اذان کہنا سنت ہے]
’’شرح السنۃ‘‘ میں ہے :
’’روي أن عمر بن عبد العزیز کان یؤذن في الیمنی، ویقیم في الیسری، إذا ولد الصبي‘‘[3] انتھی
[روایت کی گئی ہے کہ عمر بن عبد العزیز بچے کی پیدایش کے وقت اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے تھے]
امام ابو داود اپنی سنن میں خود روایت کرتے ہیں :
’’عن عبید اللّٰه بن أبي رافع عن أبیہ قالت: رأیت رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم أذّن في أذن الحسین بن علي حین ولدتہ فاطمۃ بالصلاۃ‘‘[4] رواہ أبوداود والترمذي۔
[عبیداﷲ بن ابی رافع سے مروی ہے، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حسین بن علی کو جنم دیا تو میں نے دیکھا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے کان میں ) نماز والی اذان کہی۔ اس روایت کو ابو داود اور ترمذی نے نقل کیا ہے]
|