Maktaba Wahhabi

541 - 702
میں کہتا ہوں کہ اگر ان کے کلام کی اس طرح تاویل کی جائے کہ لفظ وجوب کو مقدر مانا جائے، یعنی ’’رفضت وجوبھا‘‘ اور ’’لا یعق وجوباً‘‘ تو اس طرح ان کے کلام اور احادیث کے درمیان تطبیق ہو جاتی ہے اور اہل سنت کا مذہب یہی ہے کہ احادیث کے مطابق بنانے کے لیے کسی عالم کے قول کے اندر ایسی تاویل کرنا مناسب ہے، کیونکہ ہمارے نزدیک صحیح حدیث میں تاویل کرنے کے بجائے کسی عالم کے قول میں تاویل کرنا زیادہ بہتر ہے ۔ اس قول میں تاویل کر کے قرآن و سنت کے مطا بق کر لیا جائے، بجائے اس کے کہ امتی کے قول کو تسلیم کیا جائے اور کتاب و سنت میں تاویل کی جائے۔ ھذا آخر ما قصدنا إیرادہ في ھذا الکتاب المسمی بالأقوال الصحیحۃ في أحکام النسیکۃ، فللّٰه الحمد والمنۃ، الآن یناسب أن أبین ما ھو من متعلقات ھذا الباب، من حکم الأذان حین ولادتہ، وتسمیۃ المولود بأول یوم کانت أفضل، وغیرہ، فأقول بفضل اللّٰه العلام، وھو ملھم الصدق والصواب۔ [عقیقے کی مشروعیت کے بارے میں اس گفتگو کے بعد اب چند باتیں مولود سے متعلق دیگر احکام کے سلسلے میں ذکر کی جاتی ہیں ] معلوم ہونا چاہیے کہ ولادت کے بعد مستحب ہے کہ مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے۔ چنانچہ شیخ جلال الدین سیوطی نے ’’جامع صغیر في أحادیث البشیر النذیر‘‘ کی جلد دوم میں کہا ہے: ’’من ولد لہ ولد فأذن في أذنہ الیمنی، وأقام في أذنہ الیسری، لم تضرہ أم الصبیان ‘‘ رواہ أبو یعلي في مسندہ عن الحسین۔[1] [جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کے دائیں کان میں اذان کہے اور اس کے بائیں کان میں اقامت کہے تو اسے ’’ام الصبیان‘‘ (ایک بیماری جس سے بچے بے ہوش ہوجاتے ہیں ) نقصان نہ پہنچائے گی۔ اس روایت کو ابو یعلی نے اپنی مسند میں حسین کے واسطے سے نقل کیا ہے]
Flag Counter