Maktaba Wahhabi

540 - 702
امام محمد وجوبِ عقیقہ کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں ، نہ کہ اس کے استحباب کے، چنانچہ شیخ ابن عابدین ’’رد المحتار‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’تستحب لمن ولد لہ أن یسمیہ یوم أسبوعہ، و یحلق رأسہ، و یتصدق عند الأئمۃ الثلاثۃ بزنۃ شعرہ فضۃ أو ذھبا، ثم یعق عنہ عند الحلق عقیقۃ إباحۃ أو تطوعا، وبہ قال مالک، و سنھا الشافعي و أحمد سنۃ مؤکدۃ ‘‘[1] انتہی ملخصا۔ [تین اماموں کے نزدیک جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو، اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ ساتویں دن اس کا نام رکھے، اس کا سر منڈوائے اور ان کے وزن کے برابر چاندی یا سونا صدقہ کرے، پھر حلق کروانے کے بعد بطور مباح یا تطوع اس کی طرف سے عقیقہ کرے۔ یہی امام مالک رحمہ اللہ کا موقف ہے، جبکہ امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ نے عقیقے کو سنت موکدہ قرار دیا ہے] اس کی تفصیل کتاب میں پہلے گزر چکی ہے کہ امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کی طرح امام محمد کی طرف بھی عقیقے کے استحباب یا اباحت کا قول منسوب کیا جاتا ہے، گویا ان کے نزدیک بھی در اصل عقیقے کا وجوب منسوخ ہے نہ کہ اس کا استحباب۔ اس صورت میں ان کی کتابوں میں جو عبارتیں ہیں ، ان میں ’’وجوب‘‘ کو مقدر ماننا پڑے گا، تاکہ ان کا قول دیگر علماے احناف کے قول کے خلاف نہ ہو۔ چنانچہ وہ کتاب الآثار میں فرماتے ہیں : ’’کانت العقیقۃ في الجاھلیۃ فلما جاء الإسلام رفضت، وبہ نأخذ‘‘[2] [زمانہ جاہلیت میں لوگ عقیقہ کرتے تھے، تو جب اسلام آیا تو اسے چھوڑ دیا گیا اور ہم بھی اسی پر عمل کریں گے] جامع صغیر میں کہتے ہیں : ’’لا یعق عن الغلام ولا عن الجاریۃ‘‘ انتھی [نہ بچے کی طرف سے عقیقہ کیا جائے اور نہ بچی ہی کی طرف سے] اسی طرح انھوں نے اپنے موطا میں فرمایا ہے۔
Flag Counter