جیسا کہ قسطلا نی شرح بخاری میں مسطور ہے۔[1] ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’قال: فرض رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم صدقۃ الفطر صاعا من شعیر أو صاعا من تمر، علی الصغیر والکبیر والمملوک‘‘[2] رواہ البخاري
[فرماتے ہیں : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹے، بڑے اور غلام پر صدقہ فطر فرض کیا ہے، ایک صاع جَو سے یا ایک صاع کھجوروں سے۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے]
یہ ہے جواب دار قطنی و بیہقی و ابن عدی اور ابن مبارک کی روایت کا اور یہی جواب ہے موطا امام محمد کی روایت کا بھی۔ ابراہیم نخعی کا یہ قول کہ ’’کانت العقیقۃ في الجاھلیۃ، ثم جاء الإسلام فرفضت‘‘ [عقیقہ جاہلی دور میں رائج تھا، اسلام آیا تو چھوڑ دیا گیا] درست نہیں ، بلکہ صحیح احادیث کے خلاف ہے، کیونکہ بہت سی حدیثوں سے اس کی مشروعیت اسلام میں ثابت ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقہ کیا ہے اور صحابہ کرام اس پر عمل کرتے رہے ہیں ۔ ممکن ہے امام نخعی کو عقیقے کی حدیثیں نہ پہنچی ہوں ۔ بہر حال ان کے قول سے صحیح مرفوع حدیثیں منسوخ نہیں ہوسکتیں ۔ اس کے علاوہ اس میں راوی حماد بن ابی سلیمان ہے، جن پر محدثین نے کلام کیا ہے۔
الشیخ العلامہ حافظ شمس الدین ذہبی ’’میزان الاعتدال في نقد الرجال‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’حماد بن أبي سلیمان، تکلم فیہ للإرجاء، وقال أبو حاتم۔ صدوق لا یحتج بہ، وقال أبو الملح الرقي: قدم علینا حماد فخرجت إلیہ، فإذا علیہ ملحفۃ معصفرۃ، وقد خضب بالسواد، فلم أسمع منہ، وعن الأعمش قال: حدثني حماد بحدیث عن إبراھیم، وکان غیر ثقۃ، و قال مرۃ ثانیۃ: ما کنا نصدقہ‘‘[3] انتھی
[حماد بن ابی سلیمان پر ’’ارجاء‘‘ کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے: وہ صدوق ہے، اس سے حجت نہیں لی جاتی۔ ابو الملح الرقی نے کہا: حماد ہمارے پاس آیا تو میں اس کے استقبال کے لیے نکلا، کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے کسنبے (ممنوع) رنگ کی چادر اوڑھ رکھی ہے اور سیاہ رنگ کا خطاب کیا ہوا ہے تو میں نے اس سے کوئی روایت نہ
|