نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے سے منع فرمایا تھا تو اس سے مقصود یہ ہے کہ ان دونوں کا عقیقہ میں نے کردیا ہے، تمھیں کرنے کی ضرورت نہیں ۔ عقیقے کے بارے میں امِ کرز کی جو روایت مشکوٰۃ وغیرہ میں مذکور ہے، اسے ام کرز نے حدیبیہ والے سال یعنی ۶ ھ میں روایت کیا ہے اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس پر عمل کرتے رہے ہیں ۔ ابراہیم نخعی ، محمد بن حنفیہ، جو تابعین سے ہیں ، ان کے اقوال سے مرفوع حدیث منسوخ نہیں ہوسکتی۔ جبکہ محمد بن حنفیہ سے روایت کرنے والا مجہول بھی ہے۔ اور ابراہیم نخعی کے قول کا راوی حماد بن ابی سلیمان بھی متکلم فیہ ہے۔‘‘ ان کا کلام ختم ہوا۔
میں کہتا ہوں کہ نسخ سے متعلق مذکورہ بالا حدیث میں ایک اشکال یہ بھی ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زکات نے ہر صدقہ منسوخ کر دیا ہے، گویا صدقہ فطر بھی منسوخ ہے۔
چنانچہ تاریخ خمیس میں کہتے ہیں :
’’في السنۃ الثانیۃ فرضت زکوٰٰۃ الفطر، فکان ذلک قبل العید بیومین، کذا في أسد الغابۃ فخطب الناس قبل الفطر بیومین، یعلمھم زکاۃ الفطر، فکان ذلک قبل أن تفرض زکاۃ الأموال ‘‘ انتھی
[ہجرت کے دوسرے سال عید سے دو روز قبل زکوۃ فطر (فطرانہ) فرض ہوئی۔ اسد الغابہ میں یہی مرقوم ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر سے دو دن قبل لوگوں سے خطاب کیا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں زکاتِ فطر کی تعلیم فرما رہے تھے اور یہ مال پر زکات کے فرض ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے]
حالانکہ حقیقت امر یہی ہے کہ صدقہ فطر کا وجوب ساقط نہیں ہوا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہمیشہ صدقہ فطر ادا کیا جاتا رہا اور صحابہ کرام نے بھی برابر اس کا اہتمام کیا ہے، جیسا کہ حضرت علی اور صحابہ کرام جیسے عمر، ابن عمر، جابر، عائشہ وغیرہم رضی اللہ عنہم کا یہی مذہب ہے، جیسا کہ بخاری شریف میں مذکور ہے۔ یہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک واجب ہے اور تینوں ائمہ کے نزدیک فرض ہے،
|