Maktaba Wahhabi

536 - 702
یہ ہے کہ قربانی کی مشروعیت پہلے سال ہے اور حسن و حسین کا عقیقہ تیسرے اور چوتھے سال کا واقعہ ہے، ام کرز کی بیان کردہ حدیث حدیبیہ والے سال چھے ہجری کی ہے اور ابراہیم کا عقیقہ نو ہجری کا واقعہ ہے۔ اس عقیقے کی سنت پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابن عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمل کیا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: عقیقے کے متعلق وارد احادیث کی مخالف کرنے والی احادیث کی پروا نہ کی جائے] صاحبِ محلی کے قول: ’’إن شرعیۃ الأضحیۃ في الأولی من الھجرۃ‘‘ [قربانی کی مشروعیت ہجرت کے شروع میں تھی] میں لفظ ’’اولی‘‘ سے مقصود ہجرت کا سال اول نہیں ہے۔ یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے، کیونکہ اس کی مشروعیت ۲ ہجری میں ہوئی ہے۔ بلکہ مذکورہ کلام میں لفظ اولیٰ سے مراد ہجرت کے آغاز کا دور مراد ہے کہ دوسرا سال ہے، پہلے سال کے بعد۔ واللّٰه أعلم بمراد العباد۔ احقر نے اپنے استاد شیخ المشائخ قدوۃ المحققین مولانا بشیر الدین قنوجی سے جب اس موضوع سے متعلق سوال کیا تو انھوں نے جواب میں تحریر فرمایا: ’’نسخ سے متعلق امام محمد کی دلیل شاید حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جو دار قطنی وغیرہ میں موجود ہے، اگر یہ صحیح بھی مان لی جائے تو اس سے صرف وجوبِ عقیقہ کا نسخ ثابت ہوتا ہے اور یہ استحبابِ عقیقہ کے منافی نہیں ، اس لیے کہ اس کا استحباب دوسری احادیث سے ثابت ہے، جیسا کہ رمضان کے علاوہ ہر روزے کے وجوب کے منسوخ ہونے سے عاشورہ کے روزے کے استحباب کی نفی نہیں ہوتی اور جنابت کے علاوہ ہر غسل کے وجوب کے منسوخ ہونے سے غسل جمعہ کے استحباب کی نفی نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں بریدہ کی حدیث جو ابو داود میں ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عقیقہ نہیں ، بلکہ مولود کے سر کو ذبیحے کے خون سے مَلنا منسوخ ہوا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ قربانی کی مشروعیت ۲ھ میں ہوئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ۳ھ اور ۴ھ میں اور اپنے بیٹے ابراہیم کا عقیقہ ۹ھ میں کیا۔ اگر عقیقے کا حکم منسوخ ہوگیا ہوتا تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر عمل کیسے کرتے ؟ جس روایت میں یہ آیا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter