Maktaba Wahhabi

526 - 702
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو اس کا حکم دیا تھا اور اس لیے بھی کہ یہ آواز کو دور تک پہنچانے کا باعث ہے لیکن اگر ایسا نہ کرے تو بھی درست ہے، کیونکہ یہ اصل میں سنت نہیں ہے] پس عبارت اول و ثانی سے مراد سنت موکدہ کا اثبات اور ثا لث سے سنت موکدہ کی نفی ہے، مطلق سنت کی نفی نہیں ، جیسا کہ انھوں نے خود تصریح کی ہے : ’’بذلک أمر النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم ‘‘ [اسی چیز کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا] امام ترمذی نے اپنی جامع میں روایت کیا ہے : ’’عن عون بن أبي جحیفۃ عن أبیہ قال: رأیت بلالا یؤذن، ویدور، ویتبع فاہ ھھنا وھھنا، وأصبعاہ في أذنیہ، و رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم في قبۃ حمراء أراہ۔۔۔ إلی آخرہ‘‘[1] [ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہتے ہوئے دیکھا کہ وہ گھوم کر اپنا منہ دونوں طرف کر رہے تھے، جبکہ ان کی دونوں انگلیاں ان کے کانوں میں تھیں اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سرخ خیمے میں فروکش تھے۔۔۔ الخ] پھر فرمایا: ’’حدیث أبي جحیفۃ حدیث حسن صحیح، وعلیہ العمل عند أھل العلم، یستحبون أن یدخل المؤذن أصبعیہ في الأذن‘‘ انتھی [ابو جحیفہ والی حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے، وہ مستحب سمجھتے ہیں کہ موذن اپنی انگلیاں اذان کے وقت کانوں میں ڈالے] پس معلوم ہوا کہ سنت سے مراد مؤکدہ ہے اور نفی سے مراد مؤکدہ ہی کی نفی ہے۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ شبہہ ہو کہ عقیقے کی حدیثیں قربانی کی حدیثوں سے منسوخ ہوگئی ہیں ، جیسا کہ امام محمد بن حسن شیبانی نے دعویٰ کیا ہے، تو پھر ان پر عمل کیسے درست ہوگا؟ میں بفضل اللہ العظیم کہتا ہوں کہ امام محمد کی دلیل عقیقے کے نسخ میں یہ ہے: ’’أما العقیقۃ فبلغنا أنھا کانت في الجاھلیۃ، وقد فعلت في أول
Flag Counter