نفی مقصود ہے نہ کہ سنت غیر موکدہ کی، لہٰذا اس سے استحباب اور سنت غیر مؤکدہ کی نفی نہیں ہوتی۔ حنفی مذہب میں ’’سنت‘‘ کا اطلاق اکثر سنت مؤکدہ پر ہوتا ہے، مستحب پر نہیں ، لہٰذا سنیت کی نفی سے استحباب کی نفی لازم نہیں آتی، جیسا کہ یہ بات ہمارے استاد شیخ اجل محدث العصر خاتم محققین سیدنا مولانا نذیر حسین دہلوی۔ أدام اللّٰه فیوضہ علی رؤس الطالبین۔ نے اپنے بعض فتاویٰ میں فرمائی ہے۔
علامہ فقیہ برہان الدین مرغینانی کے طریقے سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ کتاب ہدایہ کے باب اذان میں فرماتے ہیں : ’’الأذان سنۃ الصلوۃ‘‘[1] انتھی [اذان، نماز کی سنت ہے]
ظاہر ہے کہ یہاں سنت سے سنت مؤکدہ مراد ہے اور اس کی نفی سے مستحب ہونے کی نفی نہیں ہوتی۔ نیز علامہ نسفی ’’کنز الدقائق‘‘ میں اس باب میں فرماتے ہیں :
’’من الفرائض‘‘[2] [فرائض سے ہے]
علامہ عینی اپنی شرح میں فرماتے ہیں :
’’سن أي الأذان عند الجمھور، وقیل یجب، وقیل: فرض کفایۃ، والأصح أنہ سنۃ مؤکدۃ ‘‘ انتھی
[جمہور کے نزدیک اذان مسنون ہے اور کہا گیا ہے کہ واجب ہے۔ بعض کے نزدیک فرض کفایہ ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ سنت مؤکدہ ہے]
صاحبِ ہدایہ اس باب میں فرماتے ہیں :
’’والأفضل للمؤذن أن یجعل أصبعیہ في أذنیہ، بذلک أمر النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم بلالا رضي اللّٰه عنہ، ولأنہ أبلغ في الإعلام، و إن لم یفعل فحسن، لأنھا لیست بسنۃ أصلیۃ ‘‘[3]
[موذن کے لیے افضل یہ ہے کہ اپنی دونوں انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالے
|