چنانچہ امام ترمذی نے جامع میں خود اس کی تصریح کی ہے:
’’والعمل علی ھذا عند أھل العلم یستحبون أن یذبح عن الغلام العقیقۃ یوم السابع، فإن لم یتھیأ یوم السابع فیوم الرابع عشر، فإن لم یتھیأ عق عنہ یوم إحدی وعشرین، وقالوا: لا یجزیٔ في العقیقۃ من الشاۃ إلا ما یجزیٔ في الأضحیۃ‘‘[1] انتھی ما في جامع الترمذي۔
[اہل علم کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ ساتویں دن لڑکے کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، لیکن اگر ساتویں دن میسر نہ ہو تو چودھویں دن اور اگر چودھویں دن نہ ہو تو اکیسویں دن کر لے۔ انھوں نے کہا ہے کہ عقیقے میں صرف وہی جانور ذبح کرنا درست ہے جو قربانی میں صحیح ہے]
یہ جو شیخ عبد الحق دہلوی رحمہ اللہ نے شرح مشکوٰۃ اور سفر السعادت میں فرمایا ہے کہ شافعی کے نزدیک عقیقے کے جانور کی ہڈی توڑناجائز ہے اور مالک کے نزدیک نہیں ہے، یہ غلط ہے، کیونکہ امام مالک موطا میں فرماتے ہیں : ’’وتکسر عظامھا‘‘[2] انتھی [اس کی ہڈیاں توڑی جائیں گی]
امام زرقانی مالکی اپنی شرح میں کہتے ہیں :
’’وتکسر عظامھا جوازاً، تکذیباً للجاھلیۃ في تحرجھم من ذلک‘‘[3] کما مر۔
[جواز کے طور پر ذبیحے کی ہڈیاں توڑی جائیں گی، اہل جاہلیت کی تکذیب کرتے ہوئے۔ کیونکہ وہ اس کو معیوب سمجھتے تھے]
اس کے برخلاف قسطلانی شافعی ’’ارشاد الساری‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’وأن لا یکسر عظامھا فإن کسر فخلا ف الأولی‘‘[4] انتھی، کما مر۔
[جانور کی ہڈیاں نہ توڑی جائیں ، لیکن اگر توڑی گئی تو خلاف اولیٰ ہے]
امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے جو عقیقے کا بدعت ہونا نقل کیا جاتا ہے، وہ غلط ہے ، ان کی طرف اس کی نسبت درست نہیں ، خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ اس سے متعلق بہت سی صحیح حدیثیں وارد ہیں ، جن کا انکار
|