روایۃ: إنھا سنۃ، و الثانیۃ: إنھا واجبۃ‘‘ انتھی کذا في المیزان۔
[امام شافعی اور مالک کا قول ہے کہ عقیقہ مستحب ہے، جبکہ امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ عقیقہ مباح ہے اور میں نہیں کہتا کہ وہ مستحب ہے۔ امام احمد کا قول ایک روایت کے مطابق سنت اور دوسری روایت کے مطابق وجوب کا ہے]
’’ومن ذلک قول الأئمۃ الثلاثۃ: إن السنۃ في العقیقۃ أن یذبح عن الغلام شاتان، و عن الجاریۃ شاۃ، مع قول مالک۔ إنہ یذبح عن الغلام شاۃ واحدۃ کما في الجاریۃ‘‘ انتھی، کذا في المیزان۔
[ائمہ ثلاثہ کا قول ہے کہ عقیقے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کی جائے، جبکہ امام مالک کا کہنا ہے کہ لڑکے کی طرف سے بھی لڑکی کی طرح ہی ایک بکری ذبح کی جائے]
نیز لکھتے ہیں :
’’و من ذلک قول الشافعي وأحمد باستحباب عدم کسر عظام العقیقۃ، و أنھا تطبخ أجزاء ا کبارا، تفاؤلا بسلامۃ المولود‘‘ انتھی کذا في المیزان۔
[امام شافعی اور احمد کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ عقیقے والے جانور کی ہڈیاں نہ توڑی جائیں اور اسے بڑے ٹکڑوں کی شکل میں پکایا جائے، کیونکہ اس میں بچے کی سلامتی کے لیے نیک فالی ہے]
عقیقے کے استحباب پر ائمہ اربعہ کے علاوہ تمام اہل علم صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور فقہا و محدثین متفق ہیں ۔ مجھے علم نہیں کہ کسی سے اس کے خلاف بھی کچھ منقول ہے۔ ان کے درمیان اگر اختلاف ہے تو صرف اتنا کہ کچھ اس کے وجوب کے قائل ہیں اور کچھ سنت یا مستحب ہونے کے، اس کے جواز کے سلسلے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ۔
عقیقہ کرنے کی حدیث بہت سے صحابہ کرام سے منقول ہے، جیسے علی، ام کرز، بریدۃ، سمرہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر، انس، سلمان بن عامر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم ۔
|