[امام رافعی نے ذکر کیا ہے کہ اس کا وقت ولادت کے ساتھ داخل ہوتا ہے، نیز فرماتے ہیں کہ راجح یہ ہے کہ بلوغت سے موخر نہ کیا جائے اور اگر بلوغت تک موخر ہوگیا تو ساقط ہوجاتا ہے، لیکن اگر لڑکا اپنا عقیقہ خود کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اسے ہی امام قفال نے اختیار کیا ہے اور امام شافعی سے منقول ہے کہ بڑے کی طرف سے عقیقہ نہ کیا جائے]
ابن عابدین نے ’’رد المحتار‘‘ میں کہا ہے:
’’وسنھا الشافعي وأحمد سنۃ مؤکدۃ، شاتان عن الغلام وشاۃ عن الجاریۃ‘‘[1] انتھی
[امام شافعی اور احمد کے نزدیک عقیقہ سنت موکدہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے]
بعض کہتے ہیں کہ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک عقیقہ مستحب ہے۔ چنانچہ شعرانی میزان میں کہتے ہیں :
’’ومن ذلک قول مالک والشافعي: إن العقیقۃ مستحبۃ‘‘ انتھی
[امام مالک اور شافعی کا قول ہے کہ عقیقہ مستحب ہے]
امام احمد کے نزدیک بھی عقیقہ ایک روایت کے مطابق واجب اور مشہور روایت کے مطابق سنت موکدہ ہے۔ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری، ولاد ت کے ساتویں دن ذبح کی جائے۔ ذبیحے کی ہڈی جوڑوں کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے نہیں توڑنی چاہیے۔ چنانچہ علامہ عبدالوہاب شعرانی ’’میزان کبریٰ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’واتفقوا علی أن وقت ذبح العقیقۃ یوم السابع من ولادتہ‘‘ انتہی، کذا في المیزان۔
[اس پر اتفاق ہے کہ ولادت کے ساتویں دن عقیقے والا جانور ذبح کیا جائے گا]
نیز لکھتے ہیں :
’’ومن ذلک قول مالک و الشافعي: إن العقیقۃ مستحبۃ مع قول أبي حنیفۃ إنھا مباحۃ، و لا أقول: إنھا مستحبۃ، و مع قول أحمد في أشھر
|