نیز فرمایا:
’’شاتین بصفۃ الأضحیۃ عن الغلام، وشاۃ عن الجاریۃ، رواہ الترمذي وأبو داود والنسائي، لأن الغرض استیفاء النفس فأشبھت الدیۃ لأن کلا منھا فداء للنفس، وتعین بذکر الشاۃ الغنم للعقیقۃ، وبہ جزم أبو الشیخ الأصبھاني، وقال البندنیجي من الشافعیۃ: لا نص للشافعي في ذلک، وعندي لا یجزیٔ غیرھا، والجمھور علی إجزاء الإبل والبقر أیضاً، لحدیث عند الطبراني عن أنس مرفوعاً: یعق عنہ من الإبل والبقر والغنم‘‘ انتھی، کذا في القسطلاني۔[1]
[دو بکریاں قربانی کی صفات والی لڑکے کی طرف سے اور ایک بکری لڑکی کی طرف سے ہوگی۔ اسے امام ترمذی، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ کیونکہ مقصود ایک نفس کو مکمل ذبح کرنا ہے، اس طرح وہ دیت کے مشابہ ہے، کیونکہ ان سب میں ایک جان کی قربانی ہے۔ حدیث میں بکری کا ذکر آنے میں عقیقے میں اس کی تخصیص ثابت ہوتی ہے، یہی بات ابو الشیخ اصبہانی نے کہی ہے۔ امام بندنیجی شافعی کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں امام شافعی سے کوئی نص نہیں ہے اور میرے نزدیک اس کے سوا اور کفایت نہیں کرتی۔ جبکہ جمہور علما کا موقف ہے کہ عقیقے میں گائے اور اونٹ ذبح کرنا بھی درست ہے، کیونکہ معجم طبرانی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ عقیقے میں اونٹ، گائے اور بکری ذبح کی جائے گی]
مزید فرماتے ہیں :
’’وذکر الرافعي أنہ یدخل وقتھا بالولادۃ، ثم قال: والاختیار أن لا تؤخر عن البلوغ، فإن أخرت إلی البلوغ سقطت عمن کان یرید أن یعق عنہ، لکنہ إن أراد ھو أن یعق عن نفسہ فعل، واختارہ القفال، ونقل عن نص الشافعي في البوطي أنہ لا یعق عن کبیر‘‘[2] انتہی کذا في القسطلاني۔
|